ہفتہ, دسمبر 21, 2024
اشتہار

’افراط زر میں کمی کے پیش نظر شرح سود میں نمایاں کمی کی جائے‘

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد جاوید بلوانی اور چیئرمین پالیسی ریسرچ اینڈ ایڈوائزی کونسل (پی آر اے سی) محمد یونس ڈھاگا نے ستمبر 2024 میں افراط زر میں نمایاں کمی کے ساتھ 6.9 فیصد کی سطح پر آنے پر اسٹیٹ بینک کو آئندہ مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) میں شرح سود میں کم از کم 300 بیسس پوائنٹس کی کمی کا مشورہ دیا۔

ایک مشترکہ بیان میں جاوید بلوانی اور یونس ڈھاگا نے گزشتہ تین اجلاسوں میں پالیسی ریٹ کو بتدریج 22 فیصد سے کم کر کے 17.5 فیصد کرنے پر اسٹیٹ بینک کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ستمبر میں مسلسل دوسرے ماہ مہنگائی میں سنگل ڈیجٹ تک کمی دیکھنے میں آئی لہٰذا مرکزی بینک کو اب پالیسی ریٹ کو مزید جارحانہ انداز میں کم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر اب قابو میں ہے اور اشیاء کی قیمتوں میں استحکام کے ساتھ کم از کم 300 بیسس پوائنٹس کی اہم پالیسی ریٹ میں کمی کاروبار پر دباؤ کو کم کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے بہت ضروری ہے، نیز کم شرح سود بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں ترقی کو تقویت بخشے گی جس میں حالیہ مہینوں میں مسلسل کمی دیکھی گئی۔

- Advertisement -

کے سی سی آئی کے صدر جاوید بلوانی نے کہا کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈیکس (ایل ایس ایم آئی) جنوری 2024 کے مقابلے میں جولائی 2024 کے دوران 19.2 فیصد کم ہوا جس سے نجی شعبے کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی ہوتی ہے جس کی وجہ زیادہ شرح سود، قرضوں تک کم رسائی اور بہت زیادہ زرِ ضمانت کی شرائط ہیں، عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں زرِ ضمانت کی مالیت قرضوں کا اوسطاً 153 فیصد سے زیادہ ہے جس نے نجی شعبے کی فنانسنگ کو مزید محدود کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے ورلڈ بینک کے تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں نجی شعبے کا قرضہ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں کم ترین سطح پر آ گیا ہے جو کہ 2023 تک جی ڈی پی کا صرف 12.0 فیصد تھا جبکہ بھارت کے نجی شعبے کو قرضے جی ڈی پی کا 50.1 فیصد، ترکی 50.3 فیصد اور بنگلہ دیش میں 37.6 فیصد ہے، سرکاری اور نجی شعبے کے قرضوں کے درمیان بڑھتا ہوا فرق تشویش کا باعث ہے کیونکہ حکومت اور پبلک سیکٹر ادارے مجموعی طور پر 79.7 فیصد قرضے جذب کررہے ہیں جس کی وجہ سے نجی شعبے بہت پیچھے رہ گیا ہے، ستمبر 2024 تک مجموعی قرضوں میں نجی شعبے کا حصہ کم ہو کر محض 20.3 فیصد رہ گیا جو مارچ 2022 میں 29 فیصد تھا جب پاکستان میں پالیسی کی شرح زیادہ سازگار تھی۔

انہوں نے بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ مالی سال 2024 کے دوران سرکاری شعبے نے مجموعی قرض کا صرف 22.4 فیصد حاصل کیا جس سے ان کے نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملا۔

انہوں نے کہا کہ جب کہ اسٹیٹ بینک نے مہنگائی پر کامیابی سے قابو پالیا ہے تاہم اس کی سخت مانیٹری پالیسی غیر متوازن قرضوں کا ماحول پیدا کررہی ہے جو طویل مدتی ترقی کے امکانات کو متاثر کر سکتی ہے، مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے بلند شرح سود پر ملکی قرضوں پر انحصار نے بھی پاکستان کے ڈومیسٹک قرضوں میں اضافے کا سبب بنا ہے، مالی سال2024 کے دوران ملکی قرضوں کا مارک اپ 50.4 فیصد بڑھ کر 4.8 کھرب روپے سے بڑھ کر 7.2 کھرب روپے ہو گیا جس کی بنیادی وجہ حد سے زیادہ پالیسی ریٹ ہے۔

چیئرمین پی آر اے سی یونس ڈھاگا نے اس بات پر زور دیا کہ پالیسی ریٹ میں مسلسل تین بار کمی کے باوجود 10.6 فیصد کی موجودہ مثبت حقیقی شرح سود اب بھی خطے میں سب سے زیادہ ہے جو نجی شعبے کے قرضوں کے نمو میں نمایاں طور پر رکاوٹ ہے اور معاشی بحالی میں بھی رکاوٹ ہے جبکہ بھارت میں حقیقی شرح سود 2.9 فیصد، چین میں 2.8 فیصد اور بنگلہ دیش میں منفی 0.4 فیصد ہے، یہ پاکستان کو نجی شعبے کی قیادت میں کاروبار کی توسیع کو فروغ دینے کے حوالے سے نقصان میں مبتلا کر رہا ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ تیزی سے معاشی بحالی اور پائیدار قرضوں کے انتظام کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی کی شرح کو بتدریج کم کرکے 3.6 فیصد کی متوقع حقیقی جی ڈی پی شرح نمو تک نیچے لایا جائے۔

چیئرمین پی آر اے سی نے کمرشل بینکوں کو ایس ایم ایز اور ترقی کے اہم شعبوں کو قرض دینے کی ترغیب دیتے ہوئے نجی شعبے کے قرضے کو جی ڈی پی کے فیصد کے لحاظ سے بڑھانے کی فوری ضرورت پر بھی زور دیا، قرضوں کے عمل کو آسان بنانے اور زرِ ضمانت کے تقاضوں کو کم کرنے سے قرضوں کی زیادہ منصفانہ تقسیم ممکن بنائی جاسکے گی جس سے نجی شعبے کی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھانے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا جیسا کہ بھارت، بنگلہ دیش اور ویتنام جیسے ممالک نے کم شرح سود کے ساتھ کامیابی سے ترقی کو برقرار رکھا ہے لہٰذا مرکزی بینک کو بھی اسی طرح کی ترقی پر مبنی نقطہ نظر اپنانا چاہیے، پالیسی کی شرح میں خاطر خواہ کمی سے نہ صرف مالیاتی و اقتصادی دباؤ کم ہوگا بلکہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو بھی فروغ ملے گا اور کاروبار کی توسیع کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پی آر اے سی پائیدار اقتصادی ترقی کو فروغ دینے، مالیاتی عدم توازن کو کم کرنے اور نجی شعبے کی ترقی کو ترجیح دینے کی پالیسیوں کی وکالت کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔پالیسی ریٹ میں مزید کمی ناگزیر ہے تاکہ مہنگائی میں کمی کے فوائد کو مکمل طور پر حاصل کیا جا سکے اور نجی شعبے کو مستحکم بناکر بحالی کو فروغ دیا جا سکے۔

Comments

اہم ترین

انجم وہاب
انجم وہاب
انجم وہاب اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں اور تجارت، صنعت و حرفت اور دیگر کاروباری خبریں دیتے ہیں

مزید خبریں