یہ حمید اختر کا تذکرہ ہے جو ایک صحافی، اور ادیب تھے اور ترقی پسند تحریک سے دیرینہ وابستگی رکھتے تھے۔ حمید اختر قیام پاکستان کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔ اسی پاداش میں دو سال جیل میں گزارے۔ حمید اختر مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے گہرے دوست تھے اور ساحر لدھیانوی کے ساتھ ہیرو بننے کے لیے بمبئی پہنچے تھے۔
یہ پارہ حمید اختر کی زندگی کے اہم اور دل چسپ واقعات پر مبنی ہے۔ یہ لاہور شہر میں قیام کی روداد ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
1944-45 ء کے دوران پاؤں کی گردش حمید اختر اور ساحر کو کچھ عرصہ کے لیے لاہور بھی لے آئی۔ اس دور کے متعلق کئی واقعات جڑے ہوئے ہیں، جو حمید اختر نے اپنے مختلف کالموں میں بیان کیے ہیں۔ حمید اختر اور ساحر سے پہلے، میٹرک کرنے کے بعد ان کے دوست شیر محمد قیصر (ابن ِانشا ) 1942میں لاہور آچکے تھے۔ اس بارے میں حمید اختر لکھتے ہیں:’’میٹرک میں نمایاں کامیابی اور وظیفہ حاصل کرنے کے باوجود انہوں (ابن ِ انشا) نے مرحوم حمید نظامی کو، جن سے ان کی خط و کتابت تھی، لکھا کہ گھریلو حالات کی وجہ سے، وہ وظیفے کے باوجود تعلیم جاری رکھنے کی بجائے ملازمت کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ مرحوم حمید نظامی نے انہیں تعلیم جاری رکھنے، اسلامیہ کالج میں داخلہ دلانے اور کچھ مالی وسائل مہیا کرنے کے وعدہ پر لاہور آنے کے لیے مجبور کیا، جہاں پہنچ کر وہ اسلامیہ کالج میں داخل ہوگئے اور بیڈن روڈ کے ایک مکان کی اوپر کی منزل میں واقع اخبار کے دفتر میں مقیم ہوئے۔ ہم اپنے پرانے دوست کے نئے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے پہلی بار لاہور پہنچے اور تلاش کرتے کرتے بیڈن روڈ پر واقع اخبار کے دفتر میں پہنچے تو ہم نے ابنِ انشا مرحوم اور حمید نظامی مرحوم دونوں کو ایک ہفتہ وار اخبار کے فولڈ کیے ہوئے پرچے کے ڈھیر پر ٹکٹ چسپاں کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔‘‘
حمید اختر کو پہلی ہی بار لاہور بھا گیا، جو مستقبل میں ہمیشہ کے لیے ان کا شہر بننے والا تھا۔ کچھ عرصہ بعد ابن ِانشا ملازمت کی غرض سے انبالہ چلے گئے اور حمید اختر کے پاؤں کی گردش جاری رہی۔ وہ دوبارہ اس وقت لاہور آئے جب گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے نکالے جانے کے بعد ساحر بغرضِ تعلیم لاہور آگئے۔ انہیں ملنے حمید اختر ہر ہفتے لاہور آجاتے۔ یوں روشنیوں کے اس شہر سے ان کی پہچان اور محبت بڑھتی گئی۔ ان دِنوں کے لاہور کے بارے میں حمید اختر بیان کرتے ہیں :’’1944-45 میں اسے (ساحر کو) ادب ِ لطیف کی ادارت مل گئی۔ ہم چونکہ بیکار پھر رہے تھے اس لیے اس زمانے میں ہم نے تقریباً چھ ماہ اس شہر میں مستقل قیام کیا۔ ان دِنوں لاہور شہر کتنا خوبصورت اور دل لبھانے والا تھا، آج اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ آبادی تین لاکھ کے قریب تھی۔ شہر کی بڑی اور اہم سڑکوں پر روزانہ چھڑکاؤ کیا جاتا تھا۔ ڈاک دن میں دو بار تقسیم ہوتی تھی۔ شامیں اتنی بھرپور اور ثقافتی پروگراموں کی اس قدر کثرت ہوتی تھی کہ شام گزارنے کا فیصلہ مشکل ہوجاتا۔ کہیں کنسرٹ ہے تو کہیں موسیقی کی محفل برپا ہے۔ اوپن ایئر تھیئٹر میں اس وقت بھی ڈرامے اسٹیج ہوتے تھے۔ دہلی دروازے کے باہر عظیم الشان سیاسی جلسوں کا زور رہتا۔ اس کے علاوہ دن بھر ہوٹلوں اور ادبی پرچوں کے دفاتر میں جو محفلیں برپا ہوتیں ان کا ایک اپنا ہی انداز تھا۔ انار کلی میں نگینہ بیکری میں باری علیگ‘ گوپال مِتل‘ میاں طفیل محمد اور بہت سے دوسرے سیاسی اور ادبی لوگ بحث میں مصروف نظر آتے۔ کافی ہاؤس میں بھی رونقیں لگی رہتیں۔ یہ ہماری جوانی کا زمانہ تھا جس میں انسان زمین پر قدم رکھتے ہوئے بھی آسمان کی طرف محوِ پرواز رہتا ہے۔ ہم ان دِنوں شب بیداری اور خالص آوارہ گردی کے جنون میں مبتلا تھے۔
مجھے یاد ہے ایک رات‘ نصف شب کے بعد ہم چائے کی تلاش میں دہلی دروازے کے باہر اس چائے والے کو رات بھر ڈھونڈتے رہے جس کے بارے میں سنا تھا کہ اس کے چائے کے دیگچے میں احمد شاہ ابدالی کے وقت سے لے کر آج تک پانی ختم نہیں ہوا۔ چنانچہ ہم نے اسے ڈھونڈا اور پھر اکثر راتیں اس چائے خانے کے تھڑے پر گزاریں۔ شورش کاشمیری ان دِنوں چار پانچ برس کی قید کے بعد رہا ہو کر نیا نیا لاہور آیا تھا۔ اس سے ملاقاتیں بھی رہیں جو بڑی پکی دوستی میں بدل گئیں۔ اس کے توسط سے مولانا عطا اللہ شاہ بخاری جیسے عظیم اور بڑے لوگوں کی صحبتیں بھی میّسرآئیں۔ خود شورش بھی اپنی ذات میں کسی انجمن سے کم نہیں تھا‘‘۔ دہلی دروازے کا وہ چائے خانہ دہلی دروازے کے سامنے واقع ایک عمارت کے‘ جس کی بالائی منزل پر ’مجلس ِ احرار‘ اور’ مجلس اصلاح چار سو بیساں‘ کے بڑے بڑے بورڈ برابر برابر آویزاں تھے، حمید اختر کا محبوب چائے خانہ بن گیا۔ جہاں انہوں نے ساحر کے ساتھ مستقبل کے کتنے ہی خواب دیکھے اور مستقبل کے کتنے ہی منصوبے بنائے۔
(کتاب: ’’سوانح عمری: حمید اختر‘‘ سے انتخاب)