جمعرات, اکتوبر 24, 2024
اشتہار

فاروق ستار نے 27ویں آئینی ترمیم کا اشارہ دے دیا

اشتہار

حیرت انگیز

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق اہم بیان دے دیا۔

اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں فاروق ستار نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم سے متعلق اتفاق ہو چکا ہے، مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہمارا تحریری معاہدہ ہوا ہے۔

نئے چیف جسٹس پاکستان کے بارے میں فاروق ستار نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کے حلف سے کافی دھول بیٹھ جائے گی، عدلیہ اور ججز پیچھے مڑ کر نہیں دیکھیں گے، عدلیہ میں تقسیم یا تفریق مناسب نہیں۔

- Advertisement -

رہنما ایم کیو ایم پاکستان نے مزید کہا کہ اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، انہی ججز میں سے چیف جسٹس لایا گیا، ہو سکتا ہے وہ اہلیت میں بہتر ہوں۔

گزشتہ روز وزیر دفاع خواجہ آصف نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’خبر‘ میں 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر کہا تھا کہ آئینی ترامیم کا جو اوریجنل اسکرپٹ تھا اس پر عملدرآمد رہ گیا ہے، ہمیں اس کیلیے تیاری کرنا ہوگی اور اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم اور اے این پی کا جو مطالبہ ہے اس پر اتفاق رائے پیدا نہیں ہوتا تو ممکن نہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان نے کہا 26ویں آئینی ترمیم میں ہمارے دو اختلافات تھے کہ ملٹری کورٹس نہ بنیں اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو توسیع نہ ملے، پی ٹی آئی کے دونوں اختلافات آئینی ترامیم سے ہٹا دیے گئے تھے جس کے بعد انہوں نے حمایت کی لیکن بانی سے ملاقات کے بعد انکار کر دیا۔

یاد رہے کہ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے 26ویں آئینی ترمیم کا بل دوتہائی اکثریت سے منظور کروانے میں کامیاب رہیں۔

منظور شدہ 26ویں آئینی ترمیم کے اہم نکات:

  • سپریم کورٹ ججز تعیناتی کمیٹی کیلیے ایک سینیٹر اور ایک رکن اسمبلی کا نام وزیر اعظم دیں گے۔ تعیناتی کمیٹی میں اپوزیشن کی طرف سے دونوں نام اپوزیشن لیڈر تجویز کریں گے
  • چیف جسٹس پاکستان کی تقرری اسپیشل پارلیمنٹری کمیٹی کرے گی۔ سینئر ترین کے بجائے 3 سینئر ترین ججز میں کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔
  • پارلیمنٹری کمیٹی جج کا نام وزیر اعظم کو بھیجے گی جبکہ وزیر اعظم صدر مملکت کو سمری بھیجیں گے
  • چیف جسٹس کی تقرری کمیٹی میں 8 ارکان اسمبلی اور 4 سینیٹر شامل ہوں گے۔ پارلیمانی کمیٹی میں سیاسی جماعتوں کے عددی تناسب سے ارکان شامل ہوں گے
  • کمیٹی چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے 14 روز پہلے نئے چیف جسٹس کا نام دے گی جبکہ چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے 3 روز پہلے نئے چیف جسٹس کی تقرری کر دی جائے گی
  • دہری شہریت کا شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکتا
  • ہائیکورٹ میں 5 سال جج رہنے کے بغیر سپریم کورٹ کا جج نہیں بنا جا سکتا۔ سپریم کورٹ کا جج بننے کیلیے کم از کم 15 سال ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ وکیل رہنا لازمی ہے
  • چیف جسٹس کے مدت 3 سال ہوگی جبکہ 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہو جائیں گے۔ چیف جسٹس سوموٹو نوٹس نہیں لے سکیں گے اور اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس دائر درخواست کے علاوہ کوئی اور فیصلہ نہیں کر سکتے
  • سپریم کورٹ ہائیکورٹ کے زیر التوا مقدمات دوسری ہائیکورٹ یا خود کو منتقل کر سکتی ہے
  • سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں آئینی بینچز ہوں گے۔ آئینی بینچ کے ہیڈ کو ’پریڈائڈنگ جج‘ کہا جائے گا۔ آئینی بینچ کا پریذائڈنگ جج جوڈیشل کمیشن آف پاکستان مقرر کرے گا جبکہ آئینی بینچ میں ججز کا تقرر بھی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ آئینی بینچ آئین کی تشریح اور دیگر آئینی مقدمات سنے گا
  • آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے۔ کوئی بھی دہری شہریت والا شخص ہائیکورٹ کا جج نہیں بن سکتا۔ ہائیکورٹ کا جج بننے کیلیے کم از کم 10 سال ہائیکورٹ کا تجربہ یا عدالتی امور کا تجربہ لازمی ہوگا
  • ہائیکورٹ اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہیں کر سکے گی۔ ہائیکورٹ ترمیم کے بعد سوموٹو نوٹس نہیں لے سکے گی۔ عدلیہ استدعا کے علاوہ کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دے سکتی
  • صوبائی سطح پر ہائیکورٹ میں آئینی بینچز ہوں گے۔ جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز میں جج کا تقرر کرے گا۔ سپریم جوڈیشل کونسل تشکیل نو ہوگی
  • چیف جسٹس پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ کے 2 سینئر جج ممبر ہوں گے جبکہ 2 ممبر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ہوں گے
  • مدت پوری ہونے کے باوجود نئے چیف الیکشن کمشنر اور ممبر آنے تک پرانے برقرار رہیں گے۔ پرانے ممبر کب تک عہدے پر رہیں گے اس متعلق ترمیم میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ مدت ختم ہونے کے باوجود جب تک نیا کمشنر اور ممبر نہیں آتا تب تک پرانا برقرار رہے گا

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں