مثانہ ہمارے پیٹ کے نچلے حصے میں ایک کھوکھلا سا گیند کی شکل نما ایک عضو ہے جو پیشاب کو خارج کرتا ہے۔
پیشاب میں فضلہ اور اضافی سیال ہوتا ہے جب جسم ان چیزوں کو جذب کر لیتا ہے جو ہم کھاتے اور پیتے ہیں۔
گردے خون سے (ایسے مادے جن کی جسم کو ضرورت نہیں ہے) فضلہ جات کو نکالتے ہیں اور پیشاب بناتے ہیں، پیشاب یوریٹرس نامی نالیوں سے ہو کر مثانے تک پہنچتا ہے پھر پیشاب کی نالی (یوریتھرا) کے ذریعے جسم سے باہر نکل جاتا ہے۔
اکثر لوگوں کو مثانے کی کمزوری یا اس میں گرمی کی شکایت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے بار بار پیشاب آنے کی تکلیف ہوسکتی ہے جو مردوں اور خواتین دونوں کو متاثر کرتی ہے۔
عام طور پر مردوں میں مثانے کی خرابی کی وجوہات زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں اور اس کے علاج کے لیے بہترین طریقے جاننے کی ضرورت ہے۔
جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے ہیں، عمر بڑھنے پر ہمارے مثانے پر بھی اثر پڑتا ہے، مثانے کی صحت متاثر ہوتی ہے اور وہ اپنی لچک کھو دیتا ہے، جس کی وجہ سے پیشاب کرنے کی بار بار اور اچانک حاجت محسوس ہوتی ہے اور پیشاب کا غیر متوقع اخراج ہوتا ہے۔
مؤثر طریقہ علاج
جب مثانے کی کمزوری کی تشخیص ہوجائے تو علاج کا پہلا مرحلہ غالباً مشقیں اور طرز عمل میں تبدیلیاں ہوں گی، وہ چیزیں جو گھر پر خود کر سکتے ہیں۔
متاثرہ شخص کو کافی اور الکحل کا استعمال کم کرنے یا کچھ پاؤنڈ وزن کم کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔
آپ کا معالج آپ کو کم پانی اور مشروبات پینے کو کہہ سکتا ہے، خاص طور پر سونے سے پہلے کسی قسم کا لیکوئیڈ استعمال نہ کرنے کی ہدایت بھی مل سکتی ہے۔
روز مرہ کے کاموں میں تبدیلی
باربار پیشاب آنے کی شکایت کرنے والے مریض اپنی غذا میں تبدیلی اور روز مرہ کے کاموں میں ردو بدل کرکے اس طرح کی علامات سے جلد چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔
علاج کرنے میں پہلا قدم طرز زندگی میں تبدیلی سمجھا جاتا ہے اور کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے علاج کے ساتھ اپنی مصروفیات کا شیڈول بھی مرتب کرنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ موٹاپے کی علامات سے بھی براہ راست خطرے کا اندیشہ ہے اضافی وزن مثانے کی کمزوری اور پیشاب کی نالی پر دباؤ ڈالتا ہے۔ وزن کو کنٹرول کرنے سے مثانے اور پیشاب کی نالی پر کم دباؤ پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔