پاکستان فلم انڈسٹری میں اداکارہ نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، لیکن آج وہ ایک فراموش کردہ نام ہیں تاہم فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ان کا نام ضرور محفوظ ہے۔ نیّر سلطانہ نے ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک ہر کردار نہایت خوبی سے نبھایا اور وہ اپنے دور کی مقبول اداکارہ تھیں۔
آج اداکارہ نیّر سلطانہ کی برسی ہے۔ نیر سلطانہ 1937ء میں علی گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام طیبہ بانو تھا۔ وومین کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی شفٹ ہو گیا۔ ایک موقع پر نیر سلطانہ کی لاہور میں نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا سے ملاقات ہوئی اور ان کے کہنے پر نیر سلطانہ نے فلم میں کام کرنے کا آغاز کیا۔ نیر سلطانہ حسن و جمال کے ساتھ اردو ادب میں دل چسپی رکھتی تھیں اور ان کی زبان بہت شستہ تھی۔ انور کمال پاشا نے نیر سلطانہ کو اپنی فلم ’’قاتل‘‘ میں کاسٹ کیا۔ 1955 میں ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں نیر سلطانہ کو کام کرنے کا موقع ملا اور اس کے بعد وہ 40 برس تک فلمی دنیا میں ہیروئن اور دوسرے کردار ادا کرتی رہیں۔
70ء کی دہائی کے آغاز سے نیر سلطانہ کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ دونوں طرح کرداروں کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اور اسی لیے وہ ملکۂ جذبات مشہور ہوئیں۔ پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں گے۔
نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ نیر سلطانہ کو سرطان کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور 27 اکتوبر 1992ء کو وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔