نواز شریف وطن آئے اور ایک سال پانچ دن پاکستان میں قیام کے بعد 26 اکتوبر کو پھر لندن چلے گئے۔ اسی روز چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے اور فیملی کے ہمراہ لندن جانے والے جہاز میں سوار ہوئے۔ ن لیگ کے مطابق وہ معمول کے چیک اپ کے لیے لندن گئے ہیں اور کچھ عرصے بعد وطن واپس آ جائیں گے جب کہ قاضی فائز عیسیٰ کو ان کی درس گاہ نے بطور خاص تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہم بھی یہی حسن ظن رکھتے ہیں، لیکن زباں بندی کے اس دور میں سوشل میڈیا کی بے لگام زبان تو سابق وزیراعظم کی آمد کے بعد اب روانگی کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی سے جوڑ رہی ہے۔
تین بار وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے محترم نواز شریف کو 2019 میں ن لیگ کے مطابق انتہائی تشویشناک طبی حالت میں لندن لے جایا گیا تھا۔ اس وقت ان کی صاحبزادی مریم نواز اور پارٹی کی صف اول کی قیادت کے مطابق کئی سنگین بیماریاں لاحق تھیں، لیکن لندن کی فضا انہیں ایسی راس آئی کہ چار ہفتے کی اجازت کے باوجود وہ چار سال وہاں لگا کر آئے اور اس دورانیے میں وہ مکمل ہشاش بشاش دکھائی دیے۔
لندن میں چار سالہ نادیدہ علاج سے ایسے صحتیاب ہوئے کہ جب گزشتہ سال 21 اکتوبر کو پاکستان کی سر زمین پر قدم رنجہ فرمایا تو اس کے بعد سے اب تک انہیں کوئی بخار تو کیا تو کیا ایک چھینک بھی شاید نہیں آئی، ورنہ ہمارا میڈیا تو کسی لیڈر کی کھنکھارنے کی آواز کی بھی خبر بنا لیتا ہے اور پارٹی رہنما معمولی بیماری کو ملک کا سب سے بڑا بحران بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی مماثلت کی۔ نواز شریف جن پر ان کی پارٹی سابق پی ڈی ایم حکومت میں مسلسل وطن واپسی کے لیے دباؤ ڈال رہی تھی۔ اس وقت حکومت بھی ان کی تھی اور فضا بھی سازگار لیکن نواز شریف کی جہاندیدہ آنکھوں نے شاید افق پر کچھ خطرات کے منڈلاتے بادل دیکھ لیے تھے تب ہی وہ اپنے بھائی کے وزیراعظم ہونے کے باوجود 16 ماہ تک وطن واپس آنے کی ہمت نہ کر سکے لیکن جیسے ہی قاضی فائز عیسی نے 17 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھایا تو اس کے کچھ دن بعد ہی نواز شریف کی وطن واپسی کی حتمی تاریخ کا نہ صرف اعلان بلکہ انہوں نے تشریف لاکر پاکستان کو خود سے نواز دیا اور اس موقع پر ماضی میں ان کے دست راست محمد زبیر نے ببانگ دہل کہا کہ نواز شریف وطن واپسی کے لیے قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس بننے کا انتظار کر رہے تھے۔
ن لیگ کے دوستوں کا خیال تھا کہ نواز شریف کی آمد سے ان کی پارٹی کے تن نیم مردہ میں جان پڑے گی اور وہ پورے اختیار کے ساتھ الیکشن میں جیت کر حکومت بنائیں گے۔ لیکن ایسا لگا کہ نواز شریف کی تمام بیماریاں اور کمزوریاں رخصت ہوکر ن لیگ کے جسم میں سما گئیں اور ان کی آمد بھی ن لیگ کو 8 فروری کے متنازع الیکشن میں من چاہی دو تہائی اکثریت تو کیا سادہ اکثریت بھی نہ دلا سکے بلکہ نواز شریف جو مانسہرہ میں اپنی قومی اسمبلی کی نشست پی ٹی آئی کے ایک غیر معروف رہنما سے ہار گئے وہیں لاہور میں اپنے قلعے کے اندر وہ یاسمین راشد سے کیسے جیت پائے یہ سب پر عیاں ہے، بس یوں کہہ سکتے ہیں کہ مشکل سے عزت بچ گئی یا پھر بچائی گئی۔
الیکشن میں ن لیگ نے نعرہ دیا کہ پاکستان کو نواز دو، لیکن ووٹرز نے جس کو نوازا اس کو تو دیوار کے کنارے لگا دیا گیا۔ جیسے تیسے حکومت بنی لیکن نواز شریف کا چوتھی بار وزیراعظم پاکستان بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ ن لیگ کہہ رہی ہے کہ نواز شریف نے ازخود وزیراعظم نہ بننے کا فیصلہ کیا تو یہ سیاسی حوالے سے ان کا بڑا فیصلہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس صورتحال میں وزیراعظم کو ایک کٹھ پتلی کے طور پر دیکھ رہے تھے۔
ایک سالہ دورہ پاکستان میں اگر دیکھیں انہوں نے کیا حاصل کیا تو قصہ مختصر اپنے مقدمات ختم کراکے پارٹی کی باضابطہ قیادت سنبھالنے، الیکشن لڑنے اور وزیراعظم بننے کی راہیں ہموار کیں مگر سوائے ن لیگ کے صدر بننے کے ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اگر صدر نہ بھی بنتے تب بھی وہی ن لیگ کے سیاہ سفید کے مالک اور ہر فیصلہ ان کی مرضی سے ہوتا ہے۔ تاہم اپنی بیٹی کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوا کر انہوں نے مستقبل کی وزیراعظم کی تربیت شروع کی۔
نواز شریف کی آمد کے بعد ہاں پاکستان کی عوام اتنی باشعور ہوگئی کہ اسے فارم 45 اور 47 کا فرق پتہ چل گیا جب کہ اس سے قبل وہ صرف بیلٹ پیپر کو ہی جانتی تھی جب کہ وہ انگلش میڈیم بچے بھی جو forurty five اور forurty seven سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن مادری زبان میں پینتالیس اور سینتالیس سے نابلد بھی وہ اس سے آشنا ہوگئے۔ ہاں ایک بات البتہ مخالفین نے غلط کی کہ نواز شریف کو 45 کی پیداوار قرار دے دیا جب کہ ان کی پیدائش 49 یعنی 1949 کی ہے۔
نواز شریف اس دوران چاہتے تو اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غربت کی چکی میں پستی عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے عملی اقدامات تجویز کرتے اور اپنا ناراض ووٹ بینک واپس لاتے لیکن اس کے بجائے انہوں نے سارا زور لفظی ریلیف کے بعد مجھے کیوں نکالا، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے، پاناما سے اقامہ تک کی گردان کرنے پر دیا۔ وہ مہنگی بجلی کا ذمے دار پی ٹی آئی اور عمران کو ٹھہراتے رہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ آئی پی پیزسب سے زیادہ کس کے دور حکومت میں لگائی گئیں اور ان کے تانے بانے کہاں کہاں جا کر ملتے ہیں۔
نواز شریف نے وطن واپسی کے بعد اتنا فائدہ نہیں اٹھایا، جتنا انہیں سیاسی طور پر نقصان برداشت کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنے قریبی ساتھی جو کئی سال سے پارٹی پالیسیوں سے نالاں اور آمادہ بہ تنقید تھے۔ قائد ن لیگ نے وطن واپسی کے بعد بھی ان کے گلے شکوے دور نہ کیے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے نواز شریف کی پاکستان موجودگی میں علی الاعلان ن لیگ چھوڑ کر اپنی راہیں جدا کر لیں۔ ان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اپنی پارٹی بنا لی۔ ان کے دست راست اور سابق وزیراعلیٰ کے پی سردار مہتاب عباسی، ان کے ترجمان اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر، سینئر رہنما آصف کرمانی نے بھی ن لیگ سے پکی کُٹّی کر لی۔
اب نواز شریف لندن اور امریکا چلے گئے ہیں تو مخالفین نے وہاں بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا اور پی ٹی آئی کے منچلوں نے ایک سال سے رُکے احتجاج کا سلسلہ پھر شروع کر دیا۔ نواز شریف امریکا سے واپسی پر یورپی ممالک بھی جائیں گے جب کہ جلد ہی ان کی صاحبزادی اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی لندن میں ان سے آن ملیں گے۔ دوسری جانب اطلاعات کے مطابق قاضی فائز عیسیٰ کی گاڑی کا گھیراؤ کرنے کی بھی اطلاعات ہیں، جو یقینی طور پر ایک غلط اور قابل مذمت طرز عمل ہے۔ اس اقدام کے بعد پاکستان میں بھی ان عناصر کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی حکومت نے حملہ آوروں کا شناختی کارڈ بلاک اور پاسپورٹ منسوخ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ قاضی فائزعیسیٰ اور ہائی کمشنر کی گاڑی پر حملے پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ فوٹیجز کے ذریعے شناخت کرکے پاکستان میں بھی ایف آئی آردرج کرائی جائےگی۔ ہائی کمیشن نے برطانوی حکومت کو حملے کی شکایت کر دی ہے اور حملہ کرنے والے 9 افراد کے خلاف اسکاٹ لینڈ یارڈ کو بھی مقدمہ درج کرنے کی درخواست کی جائے گی۔
اطلاعات ہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ اپنی مادر علمی کی تقریب میں شرکت کے بعد وطن واپس آ جائیں گے اور ن لیگ کا کہنا ہے کہ نواز شریف بھی چند ہفتوں میں وطن واپس آ جائیں گے لیکن پاکستان کی سیاست میں دھند اتنی چھائی رہتی ہے کہ بعض اوقات کہے پر بھی اس وقت تک یقین نہیں آتا جب تک وہ حقیقت میں ہو نہ جائے۔ پاکستان میں آج کل ڈیل کا شور اٹھ رہا ہے۔ حکومت اور اس کے حامی عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ان کی دو بہنوں کی ضمانتوں پر رہائی کو ڈیل قرار دے رہے ہیں جب کہ ان کے مخالفین کہتے ہیں ڈیل والے لندن جاتے ہیں اور نواز شریف پہلے بھی چار ہفتوں کے لیے لندن گئے تھے چار سال لگا کر واپس آئے تھے جب کہ اب پھر لندن چلے گئے ہیں۔ حقیقت کیا ہے، چند ہفتوں بعد کھل کر سامنے آ ہی جائے گی۔
(یہ تحریر بلاگر/ مصنّف کی ذاتی رائے اور خیالات پر مبنی ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)