ہفتہ, نومبر 2, 2024
اشتہار

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا شرح سود میں نمایاں کمی کا مطالبہ

اشتہار

حیرت انگیز

صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جاوید بلوانی نے ستمبر 2024 میں افراط زر میں نمایاں کمی کے ساتھ 6.9 فیصد کی سطح پر آنے پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو آئندہ مانیٹری پالیسی کمیٹی میں پالیسی ریٹ میں کم از کم 300 سے 500 بیسس پوائنٹس کی کمی کا مشورہ دے دیا۔

جاوید بلوانی نے گزشتہ تین اجلاسوں میں پالیسی ریٹ کو بتدریج 22 فیصد سے کم کر کے 17.5 فیصد کرنے پر اسٹیٹ بینک کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ستمبر میں مسلسل دوسرے ماہ مہنگائی میں سنگل ڈیجٹ تک کمی دیکھنے میں آئی لہٰذا مرکزی بینک کو اب پالیسی ریٹ کو مزید جارحانہ انداز میں کم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ افراط زر اب قابو میں ہے اور اشیاء کی قیمتوں میں استحکام کے ساتھ کم از کم 300 سے 500 بیسس پوائنٹس کی پالیسی ریٹ میں کمی کاروبار پر دباؤ کو کم کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے بہت ضروری ہے، نیز کم شرح سود بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ میں ترقی کو تقویت بخشے گی جس میں حالیہ مہینوں میں مسلسل کمی دیکھی گئی ہے۔

- Advertisement -

ان کا کہنا تھا کہ اکتوبر 2021 میں جب مہنگائی کی شرح 9.2 فیصد تھی اُس وقت ملک میں پالیسی ریٹ صرف 7.25 فیصد تھا لہٰذا کراچی چیمبر کا شرح سود میں جارحانہ انداز میں کمی کا مطالبہ بالکل جائز ہے کیونکہ اب مہنگائی کی شرح اور زیادہ کم ہو چکی ہے ایسے حالات میں پالیسی ریٹ کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر لانا چاہیے۔

جاوید بلوانی نے کہا کہ پاکستان میں بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈیکس (ایل ایس ایم آئی) جنوری 2024 کے مقابلے میں جولائی 2024 کے دوران 19.2 فیصد کم ہوا جس سے نجی شعبے کو درپیش چیلنجز کی نشاندہی ہوتی ہے جس کی وجہ زیادہ شرح سود، قرضوں تک کم رسائی اور بہت زیادہ زرِ ضمانت کی شرائط ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں زرِ ضمانت کی مالیت قرضوں کا اوسطاً 153 فیصد سے زیادہ ہے جس نے نجی شعبے کی فنانسنگ کو مزید محدود کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے ورلڈ بینک کے تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں نجی شعبے کا قرضہ ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں کم ترین سطح پر آگیا ہے جو کہ 2023 تک جی ڈی پی کا صرف 12.0 فیصد تھا جبکہ بھارت کے نجی شعبے کو قرضے جی ڈی پی کا 50.1 فیصد، ترکی 50.3 فیصد اور بنگلہ دیش میں 37.6 فیصد ہے۔

سرکاری اور نجی شعبے کے قرضوں کے درمیان بڑھتا ہوا فرق تشویش کا باعث ہے کیونکہ حکومت اور پبلک سیکٹر ادارے مجموعی طور پر 79.7 فیصد قرضے جذب کررہے ہیں جس کی وجہ سے نجی شعبہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

ستمبر 2024 تک مجموعی قرضوں میں نجی شعبے کا حصہ کم ہو کر محض 20.3 فیصد رہ گیا جو مارچ 2022 میں 29 فیصد تھا جب پاکستان میں پالیسی کی شرح زیادہ سازگار تھی۔

انہوں نے بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہاں مالی سال 2024 کے دوران سرکاری شعبے نے مجموعی قرض کا صرف 22.4 فیصد حاصل کیا جس سے ان کے نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملا۔

صدر کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے مہنگائی پر تو کامیابی سے قابو پالیا ہے تاہم اس کی سخت مانیٹری پالیسی غیر متوازن قرضوں کا ماحول پیدا کر رہی ہے جو طویل مدتی ترقی کے امکانات کو متاثر کر سکتی ہے، مالی خسارے کو پورا کرنے کے لیے بلند شرح سود پر ملکی قرضوں پر انحصار بھی پاکستان کے ڈومیسٹک قرضوں میں اضافے کا سبب بنا ہے، مالی سال 2024 کے دوران حد سے زیادہ پالیسی ریٹ کی وجہ ملکی قرضوں پر مارک اپ 4.8 کھرب سے بڑھ کر 7.2 کھرب تک جا پہنچا جو 50.4 فیصد کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

Comments

اہم ترین

انجم وہاب
انجم وہاب
انجم وہاب اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں اور تجارت، صنعت و حرفت اور دیگر کاروباری خبریں دیتے ہیں

مزید خبریں