جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

سسٹر ابھایا کیس : مقدمہ کیا ہے؟ فیصلہ آنے میں 28 سال کیوں لگے؟

اشتہار

حیرت انگیز

کیرالہ : بھارتی ریاست کے ایک چرچ میں نن کے فرائض انجام دینے والی نوجوان راہبہ کے قتل کا فیصلہ 28 سال بعد سنایا گیا، مقتولہ کی لاش سال1992میں ایک کنوئیں سے ملی تھی۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق کیرالہ کے چرچ میں خدمات کی فراہمی پر مامور (نن) سسٹر ابھایا کی عمر 21 سال تھی اور وہ 27مارچ 1992 کو کیرالہ کے کوٹائم میں واقع ایک کنویں میں مردہ حالت میں ملی تھی۔

یہ مقدمہ کیرالہ کے مشہور ترین قتل کے مقدمات میں سے ایک ہے، جس کا فیصلہ 28 سال بعد، 22دسمبر 2020 کو ترواننت پورم کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت میں سنایا گیا۔

- Advertisement -

مذکورہ زیر نظر مضمون میں اس بات پر روشنی ڈالی جارہی ہے کہ آخر اس مقدمے کا فیصلہ کرنے میں تین دہائیوں کا عرصہ کیوں لگا؟ اور کیرالہ کے سماجی کارکنان کو اس نوجوان نن کو انصاف دلانے کے لیے اتنی جدوجہد کیوں کرنا پڑی۔

سسٹر ابھایا کون تھی اور موت کیسے واقع ہوئی؟

سسٹر ابھایا کوٹائم کے کانونٹ میں رہائش پذیر تھیں اور 27 مارچ 1992 کی صبح انہیں کانونٹ کے کنویں میں مردہ پایا گیا۔ مقامی پولیس نے جائے وقوعہ کا معائنہ کیا، لاش کو کنوئیں سے نکال کر مقدمے کی تفتیش کا آغاز کیا، ابتدا میں ہی مقامی پولیس اور پھر کیرالہ کرائم برانچ نے اس کیس کو خودکشی قرار دے کر بند کردیا تھا۔

لیکن سسٹر ابھایا کی موت نے عوام میں غم و غصہ پیدا کیا اور کئی سرگرم کارکنان خصوصاً جومون پوتھن پراکیل نے الزام لگایا کہ تفتیشی حکام نے کیس کو خراب کیا ہے۔ 1993 میں کیس دوبارہ کھولا گیا اور اسے سی بی آئی کے سپرد کر دیا گیا۔

سی بی آئی کا طویل تفتیشی سفر

سی بی آئی نے بالآخر 1993 میں مقدمہ درج کیا اور سسٹر ابھایا کی موت کی 15 سال تک تفتیش کی، اس دوران 13 سی بی آئی افسران کی ٹیموں نے اس کیس کی تفتیش کی لیکن ان کی ابتدائی تین رپورٹوں میں یہ کہا گیا کہ شواہد ختم ہوچکے ہیں اور قاتلوں کی شناخت ممکن نہیں ہے۔

عدالت نے ان رپورٹوں کو مسترد کرتے ہوئے دوبارہ تفتیش کا حکم دیا، جو بالآخر 2008 میں ایک چارج شیٹ کے ذریعے ختم ہوئی۔

سی بی آئی کی چارج شیٹ اور ملزمان

سی بی آئی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ 27 مارچ 1992 کو سسٹر ابھایا صبح 4 بجے امتحان کی تیاری کے لیے جاگیں اور پانی پینے کے لیے کچن کی طرف گئیں، وہاں انہوں نے دو پادریوں، فادر تھامس اور فادر جوز اور ایک اور نن، سسٹر سیفی کو نامناسب حالت میں دیکھا۔

سی بی آئی کے مطابق فادر تھامس نے سسٹر ابھایا کو گلا گھونٹ کر کچن میں قتل کیا جبکہ سسٹر سیفی نے انہیں کلہاڑی سے وار کیا پھر تینوں ملزمان نے مبینہ طور پر سسٹر ابھایا کو زندہ حالت میں کنویں میں پھینک دیا۔

ثبوت اور مقدمے کی سماعت

سسٹر ابھایا کی موت کے بعد کے کئی اہم شواہد، بشمول ان کی ڈائری اور کپڑوں کو ضائع کرنے کے الزامات بھی م؛ملزمان پر عائد کیے گئے۔

سی بی آئی نے 2009 میں 177 گواہوں کی ایک فہرست جاری کی اور تینوں ملزمان کا ’نارکو ٹیسٹ‘ کیا گیا جس میں انہوں نے جرم کا اعتراف بھی کیا مگر 2010 میں سپریم کورٹ نے نارکو تجزیے کو ناقابل قبول ثبوت قرار دے دیا۔

نارکو ٹیسٹ کیا ہے؟

تحقیقاتی ادارے ملزمان سے سچ اگلوانے کیلیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں جن میں ایک نارکو ٹیسٹ بھی ہے۔

مذکورہ ٹیسٹ میں مشتبہ ملزم کو سوڈیم پینٹوتھل کا انجکشن لگایا جاتا ہے جسے ٹروتھ سیرم بھی کہا جاتا ہے انجکشن لگنے کے بعد وہ شخص ہیپناٹِزم کی کیفیت میں چلا جاتا ہے اور اس کی اپنے دماغ پر گرفت کمزور پڑ جاتی ہے۔

اس کیفیت میں ملزم کی سوچ سمجھ کر جواب دینے یا دھوکا دینے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے اور وہ اپنے ذہن میں موجود حقیقت حال بیان کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ متعدد انٹیلی جنس آپریشنز میں مشتبہ جاسوسوں پر اس ٹیسٹ سے کامیاب نتائج مل جاتے ہیں۔

ایک ملزمہ کی ضمانت

سال 2009میں جسٹس کے ہیما نے ملزمہ سسٹر سیفی کی ضمانت دیتے ہوئے سی بی آئی کی تفتیش کو کمزور قرار دیا اور کہا کہ کیس میں الزامات محض قیاس آرائی پر مبنی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چرچ اور کانونٹ نے اس جرم کو چھپانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

درخواستوں کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں جسٹس کے ہیما نے کہا کہ میں نے جو محسوس کیا وہ یہ تھا کہ مقدمہ کیس کے ریکارڈ کے مواد کی بنیاد پر نہیں بلکہ میڈیا کے ذریعہ بنائی گئی کچھ قیاس آرائیوں پر مبنی ہے اور ان خیالات کا کیس ریکارڈ کے مواد سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔

عدالتی کارروائی

2018میں کے ٹی مائیکل نامی شخص کو بھی ملزم نامزد کیا گیا جو ابتدائی تفتیشی افسر تھے۔ اسی سال عدالت نے ثبوتوں کی کمی کی بنا پر فادر جوز کے خلاف مقدمہ خارج کردیا۔ 2019 میں سی بی آئی کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا۔

اس طویل عرصے کے دوران کئی اہم گواہ، بشمول سسٹر ابھایا کے والدین اور کانونٹ کی سابقہ سربراہ سسٹر لیسیو وفات پاچکے تھے جبکہ نو گواہان نے بھی اپنا بیان تبدیل کر دیا تھا۔

یہ قتل کیس اس لیے بھی یادگار ہے کہ اس میں انصاف کے لیے غیر معمولی مدت درکار ہوئی اور عدالت نے تمام تر مشکلات کے باوجود فیصلہ سنایا۔

سال 2022 میں کیا ہوا؟ 

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق عدالت نے دسمبر 2020 میں فرکوٹور اور سسٹر سیفی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ پوتھریکائل کو ناکافی ثبوت کا حوالہ دیتے ہوئے چھوڑ دیا گیا تھا۔

بعد ازاں 23 جون2022 کو کیرالہ ہائی کورٹ نے دسمبر 2020 میں مجرم قرار دیے گئے دونوں پادریوں کو ضمانت دیتے ہوئے فیصلے کو معطل کردیا۔

معزز عدالت نے دونوں ملزمان کی 5 لاکھ روپے کے مچلکے پر ان کی رہائی کی شرط رکھی اور ہدایت دی کہ وہ ریاست سے باہر نہیں جائیں گے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں