امریکا میں ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے منگل کو عوام اپنا نیا صدر منتخب کرتی ہے، جس کے بعد جیتنے والا امیدوار آئندہ چار سال کیلئے وائٹ ہاؤس کا مکین بن جاتا ہے۔
امریکا کی تاریخ میں زیادہ دو بڑی سیاسی جماعتوں رپبلکن اور ڈیموکریٹ کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے میں آتا ہے اور صورت حال اس بار بھی مختلف نہیں۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں میزبان وسیم بادامی نے ناظرین کو امریکی صدر کے انتخاب سے متعلق تفصیل سے آگاہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ صدارتی الیکشن کا یہ مرحلہ کس طرح سیاسی جماعتوں کی جانب سے امیدواروں کی نامزدگی سے لے کر انتخابات کے حتمی نتائج تک کن مراحل سے گزرتا ہے؟
انہوں نے بتایا کہ امریکا کی تمام ریاستوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے سیٹیں دی گئی ہیں جنہیں الیکٹرز کہا جاتا ہے، اور جو جماعت کسی بھی ریاست میں کم از کم 51 فیصد ووٹ لے لیتی ہے تو اس کی فاتح قرار پاتی ہے۔
امریکی صدر کا انتخاب براہ راست عوامی ووٹوں سے نہیں ہوتا بلکہ اس کا فیصلہ الیکٹورل کالج کے ذریعے کیا جاتا ہے، اس حوالے سے الیکٹرورل ووٹوں کی کل تعداد جتنی بنتی ہیں اس کے 51فیصد ووٹ حاصل کرنے والا امیداوار امریکا کا صدر بن جاتا ہے۔
مثلاﹰ ریاست کیلیفورنیا کے پاس سب سے زیادہ 54 الیکٹورل ووٹ ہیں جبکہ ویرمونٹ کے پاس سب سے کم یعنی صرف تین الیکٹورل ووٹ ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں چار مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ جس امیدوار نے عوام کے زیادہ ووٹ لیے وہ امریکا کا صدر نہ بن سکا بلکہ اس کا مد مقابل امیدوار کرسی پر براجمان ہوگیا، اس کی حالیہ مثال گزشتہ انتخابات ہیں جس میں ہیلری کلنٹن نے سب سے زیادہ (30لاکھ اضافی) ووٹ لیے لیکن جو الیکٹرورل ووٹ تھے وہ ٹرمپ کے زیادہ تھے جس کی وجہ سے وہ صدر بن گئے تھے۔
امریکا کی 50 ریاستوں میں سات ریاستیں ایسی ہیں جنہیں سوئنگ اسٹیٹس کہا جاتا ہے کیونکہ کبھی ان کا جھکاؤ ریپبلکن تو کبھی ڈیمو کریٹک کی جانب ہوتا ہے۔
یاد رکھیں !! امریکا کی 50 ریاستوں کے ووٹوں کی مجموعی تعداد 538 ہے اور جس امیدوار نے اس میں سے 270ووٹ حاصل کرلیے وہی اگلا صدر بننے کا حقدار قرار پائے گا۔