ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا تعلق صرف بلڈ شوگر سے ہرگز نہیں ہوتا بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔
ذیابیطس کے مریض کے کھانے کے بارے میں بات کی جائے تو ہمیں امراض قلب اور کینسر کی روک تھام کے حوالے سے کھانے کے بارے میں بھی سوچنا پڑتا ہے۔
ذیابیطس کی اقسام
ذیابیطس دو اقسام کی ہوتی ہیں، ٹائپ 1 ذیابیطس اور ٹائپ 2 ذیابیطس۔ ٹائپ 1 ذیابیطس میں جسم انسولین کی پیداوار کو روک دیتا ہے کیونکہ جسم کا مدافعتی نظام مریض کے لبلبے کے ان خلیوں کو تباہ کر دیتا ہے جو انسولین پیدا کرتے ہیں۔
جبکہ ٹائپ 2 ذیابیطس میں انسولین کافی مقدار میں موجود ہوتی ہے لیکن جسم اس کے خلاف مزاحم ہوجاتا ہے۔ تاہم مناسب خوراک، ورزش اور صحت بخش مشروبات سے اور ادویات پر انحصار کیے بغیر اپنے بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھنا ممکن ہے۔
معمول سے زیادہ پیشاب آنا
اگر آپ معمول سے زیادہ پیشاب کر رہے ہیں تو یہ ذیابیطس کی ابتدائی علامت ہے۔ عام طور پر ہمارا جسم گلوکوز کو دوبارہ جذب کرتا ہے جب یہ ہمارے گردوں سے گزرتا ہے لیکن جب کسی کو ذیابیطس ہوتا ہے تو جسم کھانے کو چینی میں توڑنے میں کم کارگر ہو جاتا ہے، جس سے آپ کے خون میں شوگر زیادہ ہو جاتی ہے اور آپ کا جسم اسے پیشاب کرکے اس سے نجات پاتا ہے۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کو کچھ علامات پر خاص نظر رکھنی چاہیے، جو خطرناک صورتحال کا باعث بن سکتی ہیں، اگر کسی مریض کو رات کو بار بار پیشاب آنا، چکر آنا، پسینہ آنا، دل کی تیز دھڑکن، بصارت دھندلا ہونا، تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
ذیابیطس سے بچاؤ کا نسخہ
ذیابیطس میں قدرتی علاج بہت مؤثر ہے کیونکہ یہ بیماری کی جڑ پر کام کرتا ہے اور مریض کو مکمل آرام فراہم کرتا ہے، اس کیلئے پپیتے کے پتوں سے آپ بلڈ شوگر کو کنٹرول کر سکتے ہیں اور اس کی علامات پر قابو پا سکتے ہیں۔
پپیتے کے پتوں میں ہائپوگلیسیمک اثر ہوتا ہے یعنی انہیں بلڈ شوگر کو کم کرتے دیکھا گیا ہے این سی بی آئی پر دستیاب تحقیق کے مطابق اس کا رس چوسنے سے بلڈ شوگر کو کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے۔
ان کو چبانے کے علاوہ آپ پپیتے کے پتوں کو دو اور طریقوں سے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ پتوں کو ابال کر کاڑھا بنا کر پی لیں۔ پتوں کو پیس کر رس نکال کر پی لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔