امریکی صدارتی انتخاب 2024 میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شاندار کامیابی اور کاملا ہیرس کی شکست ڈیمو کریٹک پارٹی کے عہدیداران اور ووٹرز کیلئے کسی دھچکے سے کم نہیں۔
انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد ڈیمو کریٹک پارٹی رہنماؤں نے اپنا شدید ردعمل دیتے ہوئے حیرت اور غم و غصہ کا اظہار کیا ہے، ڈیموکریٹس رہنما صدر جوبائیڈن کو کمالا ہیرس کی شکست کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق کمالا ہیرس نے خود کو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ایک کمتر امیدوار کے طور پر پیش کیا تھا اور تین ماہ پہلے ہی انتخابی دوڑ میں شامل ہوئی تھیں۔ تاہم، ان کی شکست نے کچھ ڈیمو کریٹس کو پارٹی کے مستقبل پر سوال اٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔
امریکی صدارتی انتخاب 2024
ناقدین کا کہنا ہے کہ پارٹی نے صدر جوبائیڈن کی دماغی صحت کے بارے میں اپنے حامیوں سے جھوٹ بولا۔
جوبائیڈن کے اس جھوٹ کا پردہ گزشتہ جون میں ٹرمپ کے ساتھ ایک ٹی وی مباحثے میں فاش ہوا، جس سے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی اور بالآخر بائیڈن کو صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونا پڑا۔
ایک ڈیمو کریٹک ڈونر نے سوال کیا کہ جوبائیڈن نے اتنے عرصے تک کیوں خود کو کیوں سامنے رکھا ؟ انہیں اپنی صحت کے بارے میں قوم کو سچ بتا کر پہلے ہی پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا۔
اس حوالے سے 81 سالہ صدر جوبائیڈن نے ایک نجی محفل میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ واحد ڈیمو کریٹ رہنما ہیں جو ٹرمپ کو شکست دے سکتے ہیں اور انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ وہ اگلے چار سال کے لیے بھی صدر بننے کے قابل ہیں۔
بعد ازاں جب انہوں نے جولائی میں دوڑ سے دستبرداری کا اعلان کیا تو کہا کہ یہ میری پارٹی اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے کہ میں اس دوڑ سے دستبردار ہو جاؤں۔
ایک اور ڈیمو کریٹک ڈونر بل ایکمین کا کہنا تھا کہ پارٹی کے اندر "مکمل تبدیلی” کی ضرورت ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پیغام میں انہوں نے لکھا کہ پارٹی نے صدر کی ذہنی صحت اور اہلیت کے بارے میں امریکی عوام سے جھوٹ بولا ہے اور اس کے بعد انہیں تبدیل کرنے کے لیے کوئی پرائمری الیکشن بھی منعقد نہیں کیا۔
ایک ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے عہدیدار نے بتایا کہ گزشتہ رات پارٹی اراکین کی جانب سے ناراضگی کے پیغامات موصول ہورہے تھے جیسے وہ محسوس کر رہے تھے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا۔
واضح رہے کہ صدارتی انتخاب میں کمالا ہیرس کی ہار ڈیمو کریٹس کی تین میں سے دو تلخ ناکامیوں میں دوسری شکست ہے۔ 2016 میں بھی ہلیری کلنٹن کی شکست نے بائیڈن کے لیے میدان ہموار کیا تھا۔
دوسری جانب ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ ٹرمپ کی غیر روایتی اقتصادی تجاویز، جن میں درآمدات پر مکمل ٹیکس بھی شامل ہے، ان کے غیر قانونی طور پر مقیم لاکھوں افراد کو ملک بدر کرنے کے منصوبے سے صنعتوں کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اس کے باوجود ٹرمپ نے لاطینی ووٹرز میں اپنی حمایت بڑھائی اور جارجیا اور نارتھ کیرو لائنا میں آسانی سے جیت حاصل کی، جہاں ڈیمو کریٹس سمجھتے تھے کہ ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔