ایک اچھے صحافی کا مشاہدہ بہت شان دار ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات اور چیزوں کو دیکھ کر ایسے پیٹرنز کی نشان دہی کی صلاحیت رکھتا ہے، جن کی مدد سے سماجی اور سیاسی صورت حال کی ایک حقیقت سے قریب تر تصویر بنائی جاسکتی ہے۔ یہ ذکر ہے فیض اللہ خان اور ان کی واحد کتاب ’’ڈیورنڈ لائن کا قیدی‘‘ کا۔
مشاہدے اور پیٹرن کی صفحہ 185 پر یہ خوب صورت مثال ملاحظہ کریں: ’’ملک بھر میں کہیں بھی طالبان حملہ کریں، میڈیا کے مطابق اس میں پاکستانی، ازبک، عرب اور چیچن ملوث ہیں۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ ہر بار یہ دعویٰ کیا جاتا کہ درجنوں پاکستانی اس حملے میں مارے گئے یا گرفتار ہوئے، لیکن کبھی بھی کسی کی لاش یا گرفتار پاکستانی فورسز سے متعلق کسی شخص کی فوٹیج نہیں دکھائی جا سکی۔‘‘ اب اس پیٹرن کو دیکھیں تو عین یہی آپ کو پاکستانی میڈیا میں بھی دکھائی دے گا اور بھارتی میڈیا میں بھی۔ ایسے کئی پیٹرن فیض اللہ نے کتاب میں نشان زد کیے ہیں، جو بے وجہ نہیں معلوم ہوتے۔ وہ زیرک صحافی ہیں، انھوں نے ذہانت سے اس خطے کے سماجی، سیاسی اور عسکری ذہنیت کا خاکہ کھینچا ہے۔
جب کتاب کی بات کی جاتی ہے تو اردو میڈیا سے جڑے ایک پاکستانی صحافی سے کچھ زیادہ امید نہیں کی جا سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا باب میرے لیے حیرت انگیز تھا۔ روایتی طور پر ٹی وی رپورٹنگ سے وابستہ کسی صحافی سے لمبی اور ادبی نوعیت کی تحریر کی امید کم ہی رکھی جا سکتی ہے۔ ایسے میں اپنی پہلی کتاب کا آغاز اتنے شان دار طریقے سے کرنا کہ اس پر عالمی ادبی معیار کا گمان ہو، جیسے روسی، چینی، یا لاطینی امریکی یا کوئی ترکی ادیب اپنی کتاب کا آغاز کر رہا ہو! یہ باب کسی ناول کے باب کی طرح ہے اور اس کی علامتی ویلیو یہ ہے کہ ’’حقیقت فکشن بھی ہو سکتی ہے اور فکشن حقیقت بھی۔‘‘ شاید اسی نکتے کو ایک اور طرح سے محسوس کرتے ہوئے وسعت اللہ خان نے لکھا کہ اگر فیض اللہ خان افغان صحافی ہوتا اور پاکستانی انٹیلیجنس کے ہتھے چڑھتا، تب بھی وہ ایسی ہی آپ بیتی لکھتا اور اس کا نام بھی ڈیورنڈ لائن کا قیدی ہی ہوتا۔
دراصل یہ کتاب اپنے عنوان ہی نہیں اپنے مواد میں بھی علامتوں کے ذریعے متعدد ’’حقائق‘‘ سے روشناس کراتی ہے۔ میرے لیے یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ اس کتاب میں فیض اللہ خان کی اتنی بڑی صلاحیت کا ادراک ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد 8 سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور انھوں نے ابھی تک اس فطری تحفے کی ’’ذمہ داری‘‘ قبول نہیں کی ہے۔ ذمہ داری قبول کرنا ایک نہایت قابل قدر انسانی رویہ ہے لیکن گزشتہ دو ڈھائی عشروں سے یہ رویہ عالمی سیاست کے اسٹیج پر تنظیمی عسکریت پسندی یا تنظیمی دہشت گردی سے بری طرح جڑ کر ایک بدنام علامت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ ٹی ٹی پی اور داعش جیسی تنظیمیں بم دھماکوں میں انسانوں کے قتل عام کی ذمہ داری قبول کرکے مذہب کے نام پر ’’فخر‘‘ کا اظہار کرکے انسانیت کو شرمندہ کرتی ہیں، ایسے میں فیض اللہ جیسے قلم کار کو زبان میں موجود علامتوں کے ذریعے طاقت کے مراکز کو چیلنج کرنے کی اپنی صلاحیت کو زیادہ جوش اور تحرک کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ کیوں کہ ڈیورنڈ لائن کا قیدی رہا ہو کر اپنے گھر تو آ گیا ہے اور اس نے ایک کتھا بھی سنا دی ہے، لیکن صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ قیدی ابھی تک پوری طرح رہا نہیں ہوسکا ہے۔ وہ تا حال علامتوں کی بے درد زنجیروں سے جھوجھ رہا ہے۔ ان زنجیروں سے رہائی کا واحد طریقہ اپنی صلاحیت کا ادراک ہے اور ایک اگلی کتاب۔
اس کتاب میں ایسی کئی چیزیں ہیں جن پر کافی تفصیل سے بات کی جا سکتی ہے، لیکن میری یہ تحریر ایک تعارفی تحریر ہے جس میں میں نے اس کے متن کو تنقیدی نگاہ سے بھی دیکھا ہے۔ اس کتاب کا عنوان برطانوی سامراج کو قبول نہ کرنے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ برطانیہ نے کالونی میں اپنے مفادات کی خاطر یہ لائن کھینچ کر قبائل کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا تھا۔ آج بھی، جب کہ یہ لائن نو آبادیاتی یادگار ہے، دونوں طرف کے قبائل اسے تسلیم کرنے سے اصولی طور پر انکاری ہیں۔ لیکن کتاب کا یہ عنوان اپنے ساتھ اتنے واضح علامتی معنی لیے ہونے کے باوجود اس کے ناشر زاہد علی خان نے ’’عرض ناشر‘‘ میں افغانوں سے متعلق حقیقت سے عاری اور حماقت سے بھری ایسی باتیں لکھی ہیں، کہ گمان گزرتا ہے کہ وہ زمینی حقائق کے ڈائناسارز کو جان بوجھ کر نظر انداز کر کے، من پسند اور مخصوص سوچ کی تشکیل کردہ ایسے معنی کے ہاتھوں اغوا ہو رہے ہیں، جو ہے تو مچھر اتنا لیکن پیش کیا جاتا ہے نمرود کے قاتل کے طور پر!
یہ ایک تاریخی مظہر ہے کہ حاکم قوت ہمیشہ خود کو بہ ظاہر آسان اور سادہ علامتوں کی صورت میں پیش کیا کرتی ہے تاکہ عام لوگ اپنے اندھے جذبات کی مدد سے انھیں فوراً سمجھ سکیں اور ان سے جڑ سکیں اور انھیں تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔ انھیں بس یہ محسوس ہو کہ وہ پوری طرح سمجھ چکے ہیں حالاں کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھے ہوتے۔ زبان اگرچہ خود ساری کی ساری علامتوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن روزانہ زندگی میں بولے جانے والے الفاظ کے واضح معنی اور زبان کے متفقہ گرامر کے ذریعے لوگوں کے درمیان رابطہ کاری بہ آسانی ممکن ہو جاتی ہے اور لوگ گفتگو کے ذریعے آسانی سے ایک دوسرے کا فوری مدعا سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن علامتوں کی ایک سطح وہ ہوتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دے کر انھیں غلط طور سے استعمال کرنے کے لیے بے حد مددگار ہوتی ہے۔ دھوکا یوں کہ ان کے ذریعے حقیقی صورت حال پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو کیا یاد رکھنا چاہیے، اس کے لیے ان کے سامنے یہی تشکیل شدہ معروف علامتیں رکھ کر یہ تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ وہ ’’خیر کی قوت‘‘ ہیں اور ان کا مقابل ’’بدی‘‘ کی بدترین علامت ہے۔ اس کی مثال ہمیں کتاب کے شروع میں ’’عرضِ ناشر‘‘ میں بھی ملتی ہے جس میں امریکی ڈالروں اور امریکی میزائلوں کی شرم ناک جنگ کی سیاہ تاریخ کو ’’پاکستان افغان مہاجرین کے لیے ماں کی علامت‘‘ اور ’’پڑوس ملک کے لیے انسانی تاریخ کا ناقابل فراموش رویہ‘‘ جیسے بیانیے میں ملتی ہے۔ اسی لیے چالیس لاکھ (افغان مہاجرین) کے ہندسے کو ایک ایسی عالمی اپیل کی صورت میں دہرایا جاتا ہے جس پر ’’افغانستان پر روس کے قبضے‘‘ کے بڑے جھوٹ کی رنگین چادر چڑھی ہوئی ہے۔ افغانوں کے خلاف پروپیگنڈا ہمیں ابھی افغان باشندوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کی شد و مد سے شروع کی گئی مہم کے دوران بھی ملتی ہے، تاہم اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر اس حوالے سے حقیقی صورت حال پر مبنی رپورٹس کافی تشویش ناک ہیں۔ تاہم یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ پہلے ہی باب میں فیض اللہ نے افغان سیکیورٹی اہل کاروں کے لہجوں میں ایسی خوف ناک نفرت سے سامنا کرایا ہے، جو ہرگز بدی کی کسی ماورائی علامت سے جنم نہیں لیتی، بلکہ اس کی تشکیل نفرت انگیز زمینی حقائق کرتے ہیں۔ اسے ڈیورنڈ لائن کی تاریخی علامت کے تناظر میں دیکھیں تو افغان قبائل نے جو مسلسل مزاحمت برطانوی کالونیلز کی در اندازیوں اور مداخلتوں کے سامنے کی، وہی مزاحمت انھوں نے پوسٹ کالونیل دور میں سرحد پار سے ہونے والی مداخلتوں کے جواب میں بھی کی، اور اس نفرت کو اسی مزاحمت کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر پروپیگنڈا مسلسل اور طاقت ور ہو تو فیض اللہ بھی ’’ہم نے آپ کو مہمان کا درجہ دیا‘‘ (صفحہ 208) والے مقبول ڈسکورس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یعنی پہلے آپ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکی ہتھیاروں کے ساتھ گھستے ہیں جس کے نتیجے میں وہاں کے پرامن شہری بے گھر ہوتے ہیں اور مہاجرین (جدید دنیا کی ایک نئی اچھوت برادری) بن جاتے ہیں، اور پھر انھیں سہولیات سے محروم جھونپڑیوں کے شہر میں بھیڑ بکریوں کی طرح بسا کر خود کو ’’عظیم مہمان نواز‘‘ کا خطاب دے دیتے ہیں۔
فیض اللہ نے بہت معصومیت کے ساتھ اپنے بھی دو دل چسپ ڈسکورسز تشکیل دیے ہیں، جن سے عام افغان باشندے کی نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی طرز عمل سے متعلق بھی ایک مخصوص سوچ کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔ یعنی مصنف کی تحریر سے عندیہ ملتا ہے کہ افغان سے متعلق ایک خاص رائے قائم کی جائے۔ ان میں سے پہلا ڈسکورس دیکھیں: ’’افغان شک کی بنیاد پر کوئی بھی الزام لگا کر حتمی سمجھتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 114)۔ دراصل یہ واقعہ اس وقت کے صدارتی امیدوار ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ سے متعلق ہے، جس کے بارے میں افغان قیدیوں کا کہنا تھا کہ اس نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ کوئی خفیہ معاہدہ کیا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس نے ایسا کوئی معاہدہ کیا تھا یا نہیں، عام شہری ہمیشہ سیاست دانوں کے حوالے سے اس قسم کے اندھا دھند یقین کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی شہریوں کی ایک بڑی تعداد کو کسی سیاست دان کے یہودی ایجنٹ ہونے اور کسی کے بھارتی ایجنٹ ہونے کا ’’یقین‘‘ لاحق رہا ہے، اور جو ان دو ممالک کا نہیں، وہ امریکی ایجنٹ تو ہوتا ہی ہے، جماعت اسلامی تو امریکی ڈالروں کے حوالے سے مخالفین میں بہت بدنام رہی ہے۔ لیکن بے خبر رکھے گئے عوام کا یہ عمومی رویہ اگر مخصوص قوم کی خصوصیت بنا کر پیش کیا جائے تو اسے کلامیہ (ڈسکورس) سازی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
دوسرا دل چسپ ڈسکورس اس طرح تشکیل پاتا ہے: ’’افغان انرجی ڈرنک کے دیوانے ہیں۔‘‘ (صفحہ 117)۔ اس طرح کے بیانات میں امر واقعہ کا انکار ممکن نہیں ہوتا، لیکن جملے کا معنیٰ بہ ظاہر اتنا ہی نہیں ہوتا۔ ڈسکورسز کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ یہ طاقت اور سیاسی معنی سے لبریز ہوتے ہیں۔ یہ وقت پڑنے پر آسانی سے اپنا رنگ اور اپنی صورت بدل لیتے ہیں۔ یعنی جیسے ہی طاقت اور سیاسی صورت حال بدلتی ہے، ڈسکورس والی نام نہاد حقیقت بھی اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ افغان اگر انرجی ڈرنک کے ’’دیوانے‘‘ ہیں تو اسے افغانستان میں طویل غیر ملکی مداخلتوں (بالخصوص امریکی) کے تناظر سے ہٹ کر دیکھنا منصفانہ اظہار نہیں ہے۔ اسی طرح تو افغان ڈالر کے بھی دیوانے ہیں لیکن اس کا ’’امریکی استعماری‘‘ تناظر کتنا شرم ناک اور ہول ناک ہے۔ اس طرح کے ڈسکورسز ایک قوم کو ایک خاص رنگ اور ڈھنگ میں پیش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں ایک خاص تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔
یہ کتاب اگرچہ ایک اچھی دستاویز کی طرح ہے تاہم افغان سماج کا تجزیہ ایک زیادہ غیر جانب دار رویے کا طالب ہے۔ اوپر صفحہ 185 کا جو اقتباس پیش کیا گیا ہے، اس کے بعد افغان میڈیا میں پاکستان کی مخالفت کا خصوصی ذکر موجود ہے لیکن جس سماجی تجزیے کی ضرورت تھی وہ موجود نہیں۔ مثال کے طورر پر اس اقتباس سے قبل سرمایہ کاری (بالخصوص انفراسٹرکچر میں) کے حوالے سے بھارت افغانستان دو طرفہ تعلقات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ایک اچھا سماجی تجزیہ کار یہ بنیادی سوال اٹھائے گا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ جغرافیائی، سماجی اور ثقافتی قربت اور اشتراک کے باوجود اس سرمایہ کاری کی طرف پاکستان نہیں گیا؟ افغانستان صرف ڈیورنڈ لائن ہی پر نہیں، ملک کے اندر مداخلت پر بھی شاکی رہا ہے۔ طویل عرصے تک اس مداخلت کے باوجود پاکستان کا یہ کردار افغانستان کے اندر تعمیر و ترقی کی طرف کیوں نہیں گیا؟ اس تجزیے کی عدم موجودی کے باعث ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے افغان میڈیا کا یہ پاکستان مخالف رویہ کسی پراسرار قوت کے طابع ہو۔ حالاں کہ یہ سامنے کی بات ہے کہ اگر چودہ اگست کو یہ میڈیا پاکستان کے حوالے سے کوئی خبر نہیں چلاتا اور پندرہ کو ہندوستان کی آزادی پر خصوصی نشریات ترتیب دیتا ہے تو اسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وہ افغانستان کا کاروباری اور سرمایہ کاری پارٹنر ہے، سوال یہ ہے کہ ہم نے وہاں کس چیز میں سرمایہ کاری کی ہے؟
میرا خیال ہے کہ یہ کتاب اپنے زبردست متن کے باعث بین الاقوامی مارکیٹ ویلیو رکھتی ہے، جیسا کہ فیض االلہ کو یہ مشورہ بھی دیا گیا تھا کہ وہ اس کتاب کو پہلے انگریزی میں چھپوائیں، میں اس مشورے سے خود کو متفق پاتا ہوں۔ تاہم بین الاقوامی مارکیٹ میں آنے والی کتابوں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ انھیں زبردست طور سے ایڈیٹنگ کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے، تاکہ ایک طرف زبان اور اس کے گرائمر کے حوالے سے ان میں سقم نہ رہے، دوسری طرف متن کو اتنا چست کیا جا سکے کہ اس میں کوئی جملہ یا پیراگراف اضافی محسوس نہ ہو، اور کوئی واقعہ ایسا نہ لگے کہ اسے زبردستی بٹھایا گیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا قیدی میں ایڈیٹنگ کی بہت زیادہ ضرورت ہے، ایک طرف اگر کاما اور ڈیش کا عدم استعمال پریشان کرتا ہے، تو دوسری طرف ان کا غلط استعمال تقریباً ہر صفحے پر ملتا ہے۔ مندرجہ بالا ان تمام خامیوں کے باوجود یہ ایک اچھی دستاویز ہے، جس میں کچھ دل چسپ حقائق ایسے بھی ملتے ہیں، جنھیں ہم سامراجی رویوں کے نتائج کے تاریخی تسلسل میں دیکھ سکتے ہیں۔ صفحہ 160 پر لکھا گیا ہے کہ ابو بکر البغدادی نے علاقوں پر قبضہ شروع کیا تو جن عراقی فورسز پر امریکا نے اربوں ڈالرز لگائے تھے، انھوں نے کوئی مزاحمت کیے بغیر علاقے چھوڑ دیے۔ اب حال ہی میں افغانستان میں طالبان کی باز آمد پر اسی تاریخ نے خود کو دہرایا۔
جو بائیڈن کے زیر صدارت جب امریکا نے آخرکار افغانستان سے نکلنے کے فیصلے کو اگست 2021 میں عملی صورت دے دی تو یہ بات میڈیا میں اس طرح بریکٹ نہیں ہوئی، جس طرح فیض اللہ خان نے القاعدہ کی خراسان شاخ کی شوریٰ کے ایک رکن شیخ جعفر کے انٹرویو کے ذریعے واضح کی، کہ امریکا کے افغانستان سے انخلا سے کئی سال قبل القاعدہ کی تمام عسکری اور فکری قیادت افغانستان سے نکل کر عراق، شام، لیبیا، صومالیہ اور الجزائر جیسے ممالک میں منتقل ہو چکی تھی (صفحہ 144)۔
یہ کتاب اپنے مواد میں بے حد اہم ہے، اور فیض اللہ کا طرز تحریر کافی دل چسپ ہے، یعنی کتاب خود کو آخر تک پڑھواتی ہے۔