جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

رشی دا: وہ فلم بینوں کو ہنسانے اور رلانے کا ہنر جانتے تھے!

اشتہار

حیرت انگیز

رشی دا کو انڈین فلمی صنعت کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ ان کی فلمیں انڈیا ہی نہیں پاکستان میں بھی دیکھی گئیں اور یادگار ثابت ہوئیں۔ ان میں اصلی نقلی، اناڑی، اور نمک حرام کے نام شامل ہیں۔

رشی کیش مکھرجی المعروف رشی دا 83 سال کی عمر میں 2006ء میں چل بسے تھے۔ ستمبر 1922ء کو رشی کیش مغربی بنگال کے مشہور شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسی شہر کی جامعہ سے گریجویشن کے بعد کچھ عرصہ تدریس کے فرائض انجام دیے، بعد میں فلم ایڈٹنگ سیکھی۔ اس زمانے میں کلکتہ بھی فلم کا ایک بڑا مرکز ہوتا تھا۔لیکن بعد میں سب نے بمبئی کا رخ کرلیا تھا۔ 1951ء میں رشی دا نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ پہلی مرتبہ انھوں نے نامور فلم ساز بمل رائے کے ساتھ کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ وہ فلم مسافر میں بمل رائے کے معاون ڈائریکٹر رہے۔ یہ فلم تو کام یاب نہیں ہوسکی لیکن مشہور اداکار اور فلم ساز راج کپور رشی کیش مکھرجی کے کام سے بہت متاثر ہوئے اور 1959ء میں اپنی فلم ’اناڑی‘ کے لیے ہدایات کار منتخب کرلیا۔ اس فلم میں اداکار راج کپور کے ساتھ اس دور کی مشہور اداکارہ نوتن کام کررہی تھیں۔ یہ فلم نہایت کام یاب ثابت ہوئی اور رشی دا کے کیریئر کو خوب اجالا۔ رشی دا نے کم مگر نہایت معیاری فلمیں بنائیں اور شان دار کام کیا۔ وہ 46 فلموں کے ہدایت کار تھے جنھوں نے پندرہ فلموں کی کہانیاں بھی لکھیں۔ رشی دا بھی بامقصد تفریح کے قائل تھے اور وہ سماجی موضوعات پر فلم بنانا پسند کرتے تھے۔

ہدایت کار رشی دا نے گھریلو فلمیں اور سیدھی سادی کہانیاں سنیما بینوں کو دیں۔ وہ اپنی فلموں میں جس طرح انسان کی فطرت اور اس کے جذبات کی عکاسی کرتے تھے، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ رشی دا کی اکثر فلمیں یا تو رونے پر مجبور کردیتی ہیں یا لوگ قہقہے لگانے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ رشی دا کی فلموں کے نغمات بھی بہت مقبول ہوئے۔ فلم آشیرواد، ابھیمان، گڈی، گول مال اور خوبصورت وہ فلمیں ہیں جو رشی دا کی شہرت کی وجہ اور کام یابیوں کی مثال ہیں۔

- Advertisement -

فلمی ناقدین کے مطابق رشی دا کا کمال یہ تھا کہ وہ تشدد اور عریانیت کا سہارا لیے بغیر اپنی فلموں میں جان ڈالنا جانتے تھے۔ انھوں نے گھریلو اور عام موضوعات کے ساتھ متوسط طبقہ کے مسائل کو اجاگر کیااچھی طرح استعمال کرتے تھے۔ رشی دا فلم کو ایک طاقت ور میڈیم کے طور پر اصلاح اور پیغام رسانی کا ذریعہ خیال کرتے تھے اور اس سے یہی کام لیا۔ ان کا کمال وہ ہلکی پھلکی کامیڈی فلمیں بھی ہیں جو چپکے چپکے، نرم گرم، جھوٹ بولے کوا کاٹے
اور آنند کے نام سے بہت مقبول ہوئیں۔ رشی دا کی یادگار فلم ’آنند‘ میں اداکار راجیش کھنہ کو کینسر کے مرض کی آخری اسٹیج پر دکھایا ہے اور یہ شخص اس مشکل وقت میں بھی اپنے ساتھیوں کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے۔ ابھیمان میں رشی دا نے میاں بیوی کے رشتے کو بہت خوب صورتی سے پیش کیا ہے۔

رشی کیش مکھرجی کو 1999ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ دیا گیا جب کہ 1960ء میں ان کو اپنی فلم انورادھا پر صدر جمہوریہ میڈل دیا گیا تھا۔ فلمی دنیا میں رِشی دا کو ایک سلجھا ہوا انسان سمجھا جاتا تھا جن کا طنز و مزاح اور پرجوش انداز بھی مشہور تھا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں