ہانگ کانگ: ہانگ کانگ کی عدالت نے 45 جمہورت پسندوں کو غدار قرار دے کر لمبی سزا پر جیل بھیج دیا۔
روئٹرز کے مطابق ہانگ کانگ کی ہائی کورٹ نے منگل کو قومی سلامتی سے متعلق سب سے بڑے متنازع مقدمے میں پینتالیس جمہوریت نواز ایکٹوسٹس کو باغی قرار دے کر جیل بھیج دیا ہے۔
اس مقدمے نے ہانگ کانگ میں جمہوریت کی تحریک کو شدید نقصان پہنچایا ہے، اور امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
2021 میں کل 47 حامئینِ جمہوریت کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر بیجنگ کے نافذ کردہ قومی سلامتی کے قانون کے تحت بغاوت کی سازش کا الزام لگایا گیا تھا، اور ان میں سے چند کو عمر قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سابق قانونی اسکالر بینی تائی، جن کی شناخت کارکنوں کے ’منتظم‘ کے طور پر کی گئی ہے، کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی، جو کہ 2020 کے قومی سلامتی کے قانون کے تحت اب تک کی سب سے طویل سزا ہے۔
چینی اور ہانگ کانگ حکومتوں کا کہنا ہے کہ 2019 میں بڑے پیمانے پر جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد امن بحال کرنے کے لیے قومی سلامتی کے قوانین ضروری تھے، ان جمہوریت پسندوں کے ساتھ مقامی قوانین کے مطابق سلوک کیا گیا ہے۔
ان جمہوریت پسندوں پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے 2020 میں غیر سرکاری ’پرائمری الیکشن‘ منعقد کرنے کی سازش کی تاکہ آئندہ قانون ساز انتخابات کے لیے بہترین امیدواروں کا انتخاب کیا جا سکے، اور اس طرح انتشار انگیز سرگرمیوں میں ملوث کروا کر حکومت کو مفلوج کیا جائے۔
118 دن کے مقدمے کے بعد 14 ڈیموکریٹس کو قصوروار پایا گیا، جن میں آسٹریلوی شہری گورڈن نگ اور ایکٹوسٹ اوون چاؤ بھی شامل تھے، جب کہ دو کو بری کر دیا گیا، جب کہ دیگر 31 نے اعتراف جرم کر لیا۔
ہانگ کانگ کے ممتاز ایکٹوسٹ جوشوا وونگ کو 4 سال اور 8 ماہ قید کی سزا سنائی گئی، جب کہ چاؤ کو 7 سال اور 9 ماہ قید کی سزا سنائی گئی، سابق صحافی کم ایکٹوسٹ گائینتھ ہو کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
برطانیہ، جس نے ہانگ کانگ کو 1997 میں چین کے حوالے کیا تھا، نے کہا ہے کہ سیکیورٹی قانون کو اختلاف رائے اور آزادی کو روکنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔