معروف گلوکارہ فریدہ خانم نے 60 کی دہائی میں جب ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن سے اپنی پہچان کا سفر شروع کیا تو کئی مشہور شعراء کا کلام ان کی آواز میں سنا گیا۔ ان کی گائی ہوئی غزلیں، گیت بہت پسند کیے گئے، لیکن ایک غزل نے فریدہ خانم کو ملک گیر شہرت اور مقبولیت عطا کی۔ شاعر تھے اطہر نفیس اور اس غزل کا مطلع تھا:
وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا اب اس کا حال بتائیں کیا
کوئی مہر نہیں، کوئی قہر نہیں، پھر سچّا شعر سنائیں کیا
آج اردو زبان کے اسی معتبر غزل گو شاعر اور صحافی اطہر نفیس کی برسی ہے۔ وہ 1980ء میں وفات پاگئے تھے۔ اطہر نفیس نے اپنی منفرد شاعری اور لب و لہجے سے ادبی حلقوں اور باذق قارئین میں اپنی شناخت بنائی اور پاکستان کے معروف شعراء میں سے ایک ہیں۔ فریدہ خانم کی مدھر آواز میں اطہر نفیس کی غزل اس قدر مقبول ہوئی کہ ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ہر پروگرام میں باذوق سامعین اور ناظرین اسے سننے کی فرمائش کرتے تھے۔ گلوکارہ فریدہ خانم جب میڈیا اور نجی محفلوں میں غزل سرا ہوتیں تو ان سے یہی غزل سنانے پر اصرار کیا جاتا تھا۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی اطہر نفیس کے متعلق لکھتے ہیں ’’اطہر نفیس کی غزل میں نیا ذائقہ اور نیا آہنگ ملتا ہے۔ ان کے لہجے میں نرمی ہے۔ زبان کی سادگی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔ ان کی عصری حسیات نے نئے شاعرانہ وجدان کی تشکیل کی ہے۔ احساس کی شکست و ریخت سے ان کو حظ ملتا ہے اور اس کی ادائی ان کی شاعری کو ایک منفرد آہنگ عطا کرتی ہے۔ اطہر نفیس بھیڑ میں بھی اکیلے نظر آتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کی آواز میں انفرادیت اور نیا پن ہے۔ وہ اپنے اظہار کیلئے نئی زمینیں تلاش کرکے لائے۔‘‘
شاعر اطہر نفیس کا اصل نام کنور اطہر علی خان تھا۔ وہ 1933ء میں علی گڑھ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مسلم یونیورسٹی اسکول علی گڑھ سے حاصل کی اور پھر ان کا خاندان پاکستان چلا آیا جہاں کراچی میں اطہر نفیس نے ایک روزنامے میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہ ادبی صفحہ کے نگراں رہے اور اس کام کے ساتھ ان کی مشقِ سخن بھی جاری رہی۔ اطہر نفیس نے شادی نہیں کی تھی۔
اردو کے اس معروف شاعر نے اپنے منفرد لب و لہجے، خوب صورت اور دل نشیں اسلوب سے ہم عصر تخلیق کاروں کے درمیان اپنی الگ پہچان بنائی۔ وہ اپنے تخلیقی وفور اور دل کش اندازِ بیان کے سبب ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول تھے۔ اطہر نفیس نے اردو غزل کو خیال آفرینی اور اس کے ساتھ ایک خوب صورت، لطیف اور دھیما لہجہ عطا کیا۔ اطہر نفیس کی شاعری کا مجموعہ 1975ء میں ’’کلام‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا تھا۔
اطہر نفیس کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔
دروازہ کھلا ہے کہ کوئی لوٹ نہ جائے
اور اس کے لیے جو کبھی آیا نہ گیا ہو