امریکا میں 53 سال پہلے ڈین کوپر نامی ایک مجرم تھا، جس نے 1971 میں پورٹ لینڈ اوریگون سے سیئٹل واشنگٹن جانے والا ایک کمرشل طیارہ ہائی جیک کیا اور بعد میں تاوان کی رقم کے ساتھ پیراشوٹ کے ذریعے طیارے سے چھلانگ لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا۔
یہ 24 نومبر 1971 کی بات ہے، جب ایک شخص سیاہ سوٹ کیس لے کر پورٹ لینڈ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر نارتھ ویسٹ اورینٹ ایئرلائنز کے دفتر کی طرف جا رہا تھا، وہاں اس نے فلائٹ 305 کا یک طرفہ ٹکٹ خریدا جو کہ 30 منٹ کی مسافت کا ٹکٹ تھا، سیئٹل میں ٹاکوما انٹرنیشنل ایئرپورٹ میں اس آدمی نے اپنا نام ڈین کوپر درج کرایا۔
عینی شاہدین کے مطابق سفید فام ڈین کوپر نے فضائی سفر کے وقت سیاہ رنگ کا سوٹ اور سیاہ ٹائی، سیاہ برساتی کوٹ، اور بھورے جوتے پہنے ہوئے تھے، اس بال سیاہ آنکھیں بھوری تھیں اور وہ چالیس کے پیٹے میں تھا، اس کے ہاتھ میں ایک بریف کیس اور ایک بھورے کاغذ کا بیگ تھا۔ وہ بوئنگ 727 کی فلائٹ میں آخری قطار میں سیٹ 18-E پر بیٹھا اور فلائٹ اٹینڈنٹ سے ڈرنک کے لیے کہا۔
میرے پاس بم ہے
ڈین کوپر نے پورٹ لینڈ اور سیئٹل کے درمیان پرواز کے دوران فلائٹ اٹینڈنٹ کو ایک نوٹ لکھ کر بتایا کہ اس کے بریف کیس میں بم ہے، اگر اس کے مطالبات نہ مانے گئے تو طیارے کو اڑا دے گا، سیئٹل ایئرپورٹ پر اسے مطالبے کے مطابق 2 لاکھ ڈالر اور 4 پیراشوٹس دیے گئے، اور اس نے تمام مسافروں کو اترنے دیا، تاہم دو پائلٹس، ایک فلائٹ انجینئر اور ایک فلائٹ اٹینڈنٹ کو جہاز میں ہی رہنے پر مجبور کیا۔
اس کے بعد اس کی ہدایت پر ایندھن بھروا کر طیارے کو نیو میکسیکو لے جایا گیا، نیواڈا ایئرپورٹ پر پھر ایندھن کے لیے اترے، اور پھر جب طیارے نے ٹیک آف کیا تو آدھے گھنٹے بعد رات کے وقت اس نے پچھلے دروازے سے پیراشوٹ کے ذریعے واشنگٹن میں چھلانگ لگا دی۔
ڈین کوپر کون تھا؟
اس نے اپنا نام ڈین کوپر لکھوایا تھا، لیکن بعد میں رپورٹنگ کے دوران ایک رپورٹر نے غلطی سے اسے ڈی بی کوپر لکھا، اور یہی مشہور ہو گیا۔ وہ تقریباً 6 فٹ لمبا تھا اور اس کا نام ڈین کوپر بعد میں جعلی نکلا۔ تاہم اس نے بریف کیس کھولا تو لوگوں نے دیکھا کہ اس میں متعدد تاریں، سرخ اسٹکس اور ایک بیٹری تھی۔
اس کے چھلانگ لگانے کے بعد اس کی وسیع سطح پر تلاش شروع ہو گئی، ایف بی آئی نے سر توڑ کوششیں کیں لیکن نہ تو اسے شناخت کیا جا سکا نہ اس کا کوئی سراغ مل سکا، یعنی یوں کہا جا سکتا ہے کہ وہ آسمان سے گرا لیکن کہیں اٹکا نہیں بلکہ زمین میں سما گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کیس امریکی تاریخ کا سب سے بڑا حل طلب اسرار ہے۔
ایف بی آئی
ابتدائی طور پر ایجنسی کا خیال تھا کہ کوپر طیاروں اور علاقے دونوں کو جانتا تھا، اور یہ قیاس کیا کہ اس نے فوج میں چھاتہ بردار کے طور پر خدمات انجام دی ہوں گی، لیکن بعد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ وہ تجربہ کار اسکائی ڈائیور نہیں تھا کیوں کہ چھلانگ بہت خطرناک تھی، اور ڈین کوپر یہ محسوس کرنے میں ناکام رہا کہ اس کا ریزرو پیراشوٹ تربیتی استعمال کے مطابق سی کر بند کیا ہوا تھا۔
طیارے سے کوپر کی ایک ٹائی ملی تھی جس سے اس کا ڈی این اے لیا گیا، جس کی مدد سے اسے تلاش کیا گیا لیکن مثبت نتیجہ نہیں نکل سکا، کئی لوگ گرفتار ہوئے لیکن بعد انھیں چھوڑا گیا،
ڈین کوپر کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
آخر کار بہت سے لوگوں نے یہ یقین کر لیا کہ ڈین کوپر زندہ نہیں رہا، اس یقین کی کئی وجوہ تھیں۔ اس نے اس وقت طیارے سے چھلانگ لگائی تھی جب ہوائیں 200 میل فی گھنٹہ سے زیادہ کی رفتار سے چل رہی تھیں، اور اس نے جو پیراشوٹ استعمال کیا تھا، بد قسمتی سے اسے اپنی مرضی کی سمت میں نہیں چلایا جا سکتا تھا، اس کے علاوہ اس کا بہت امکان تھا کہ وہ ایک ناہموار اور گھنے جنگل والے علاقے میں اتر گیا تھا۔
لیکن کئی سالوں کی ناکام تلاش کے بعد تفتیش کاروں کو 1980 میں اس وقت ایک موقع ملا جب ایک لڑکے کو ایک بوسیدہ پیکٹ ملا جس میں $5,800 تھے۔ یہ پیکٹ دریائے کولمبیا کے کنارے مٹی میں دبا ہوا تھا۔ یہ سبھی 20 ڈالر کے نوٹ تھے اور رقم کے سیریل نمبرز تاوان والی رقم کے نمبروں سے مماثل تھے۔
لیکن بہت زیادہ تلاش کے بعد بھی مزید کچھ دریافت نہیں ہو سکا، آخرکار 2016 میں ایجنسی نے باضابطہ طور پر اپنی تحقیقات بند کر دیں، اور کہا کہ اس کے وسائل دوسرے کیسز میں بہترین طریقے سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ڈی بی کوپر ایک لوک ہیرو بن گیا اور اس پر گانے لکھے گئے، کتابیں تصنیف کی گئیں اور فلمیں بنائی گئیں۔