وفاقی حکومت کی جانب سے گزشتہ روز خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے حوالے سے شوشہ تو چھوڑا گیا ہے، لیکن کیا اس منصوبے پر عمل درآمد ممکن ہے؟
بجائے اس کے کہ حکومت پہل کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل نکال کر صورتحال بہتر کرتی لیکن لگتا ایسا ہے کہ اس کی جانب سے مزید سخت اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں پروگرام کی میزبان ماریہ میمن نے گورنر راج کے نفاذ اور اس کے اثرات سے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔
گزشتہ رات وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت رات گئے وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس ہوا, کابینہ اجلاس میں خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ پر مشاورت کی گئی۔
ذرائع کے مطابق کابینہ ارکان کی اکثریت نے خیبرپختونخوا میں گورنر راج کی حمایت کرتے ہوئے رائے دی کہ صوبائی حکومت نے خود ہی گورنر راج کا جواز پیدا کر دیا ہے۔
اجلاس میں اٹارنی جنرل سمیت قانونی ماہرین نے بریفنگ دی، بریفنگ میں بتایا گیا کہ صوبائی حکومت نے اسلام آباد مارچ میں سرکاری سائل کا استعمال کیا اور احتجاج میں صوبائی محکموں اور ملازمین کا استعمال کیا گیا۔
خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگانے کیلیے پیپلز پارٹی سمیت کابینہ سے باہر جماعتوں کو بھی اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گورنر راج کی ابتدائی مدت 6 ماہ ہوگی جس کا حتمی فیصلہ ایک دو روز میں ہوگا۔
حکومت خود بھی کنفیوژن کا شکار ہے
ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر وفاقی حکومت خود بھی کنفیوژن کا شکار ہے کیونکہ مختلف وزراء اس کی حمایت اور مخالفت میں رائے دے رہے ہیں۔
میزبان نے کہا کہ ایسالگتا ہے گورنر راج لگانے میں ن لیگ کی زیادہ خواہش ہے جبکہ جماعت اسلامی اور اے این پی نے اس کی دو ٹوک مخالفت کی۔
کیا کسی صوبے میں گورنر راج لگ سکتا ہے؟
اس حوالے سے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 32۔ 33 اور 34 میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ گورنر راج کے دوران بنیادی انسانی حقوق بھی معطل کردیئے جاتے ہیں، اور صوبائی اسمبلی کے اختیارات قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تفویض کردیے جاتے ہیں۔
کسی بھی صوبے میں گورنر راج نافذ کیا جاسکتا ہے، مگر اٹھارہویں ترمیم کے تحت گورنر راج کے نفاذ کو صوبائی اسمبلی کی منظوری سے مشروط کردیا گیا ہے۔ جس کے بعد وفاقی حکومت کیلئے اتنا آسان نہیں ہے کہ کسی بھی صوبے میں مخالف جماعت کی حکومت کو اثر ختم کرنے کیلئے گورنر راج نافذ کرے۔
اس کے علاوہ آئین کی شق 232 کے مطابق اگر ملک کی سلامتی جنگ یا کسی اندورنی یا بیرونی خدشے کے پیش نظر خطرے میں ہو اور صوبائی حکومت اس کا سامنا نہ کرسکتی ہو تو پھر صدر مملکت ایمرجنسی نافذ کرکے گورنر راج لگا سکتے ہیں۔ تاہم اس کی بھی شرط ہے کہ متعلقہ اسمبلی اس کی سادہ اکثریت سے قرارداد کے ذریعے منظوری دے۔
اگر متعلقہ اسمبلی سے منظوری نہ ملے تو پھر دس دن کے اندر اس کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے۔
پاکستان میں گورنر راج کب کب لگایا گیا ؟
ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ پاکستان کے کئی صوبوں میں گورنر راج نافذ کیے گئے۔ سب سے پہلے گورنر راج پنجاب میں لگا۔ 25 جنوری 1949 کو وزیر اعظم لیاقت علی خان نے پنجاب کی وزیر اعلیٰ نواب افتخار ممدوٹ کی حکومت کو ختم کیا اور سردار عبدالرب نشتر نے بطور گورنر صوبے کی باگ دور سنبھالی۔
اس کے بعد بلوچستان میں گورنر راج لگا۔ 13فروری 1973 کو اس وقت کے وزیر اعظم ذالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرکے اکبر بگٹی کو گورنر بلوچستان تعینات کردیا لیکن چند روز بعد ہی اختلافات کے باعث وہ مستعفی ہوگئے۔
سندھ میں گورنر راج 17 اکتوبر 1998 کو لگایا گیا جب کراچی میں حکیم محمد سعید کی شہادت کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے اور اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف نے سندھ میں گورنر راج لگا کر معین الدین حیدر کو گورنر تعینات کیا۔
اس کے بعد 12 اکتوبر 1999 میں پنجاب میں ایک بار پھر گورنر راج لگایا گیا، سابق صدر پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگانے کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کوبرطرف کرکے نافذ کیا۔
25فروری 2009 کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237کے تحت صدر آصف علی زرداری نے شہباز شریف کی حکومت کے خلاف دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ کیا اور سلمان تاثیر کو گورنر تعینات کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں جنوری 2013 میں کوئٹہ میں ہونے والے خودکش دھماکے میں 90افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنی ہی پارٹی کے وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کو ختم کرکے گورنر راج نافذ کیا۔