سلجوق خاندان کے حکم رانوں اور اس خاندان کی وفادار شخصیات کو بھی اسلامی دنیا میں بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ سلاجقہ ہی تھے جنھوں نے دولتِ عباسیہ کے زوال کے بعد عالمِ اسلام کو ایک مرکز پر اکٹھا کیا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں حکومت کے قیام کے بعد اس خاندان میں چوتھے حکم راں کے طور پر رکن الدّین برکیاروق نے شہرت پائی جن کا آج یومِ وفات ہے۔
سلجوق سلطنت کے بانی نسلاً اوغوز ترک تھے۔ سلطان ملک شاہ اوّل کا انتقال 1092ء میں ہوا جن کے بیٹے برکیاروق تھے۔ وہ زبیدہ خاتون کے بطن سے تولد ہوئے۔ ملک شاہ اوّل کی وفات کے بعد سلجوق خاندان میں اقتدار کی جنگ شروع ہو گئی جس نے سلطنت کو تقسیم کردیا۔ اس وقت تک سلجوق سلطان وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرچکے تھے، مگر بعد میں سلجوق خاندان میں انتشار نے ان کی طاقت اور اثر کم کر دیا تھا۔
تاریخ کے ماہرین اور محققین برکیاروق کا سنہ پیدائش 1081ء بتاتے ہیں۔ مؤرخین کے مطابق ان کا اقتدار 1104ء میں 2 دسمبر تک برقرار رہا جب ان کا انتقال ہوا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ ملک شاہ کی وفات کے بعد برکیاروق کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ سلطان کے بعد اس کے بھائیوں اور چار بیٹوں میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ ملک شاہ کی دوسری بیوی ترکان خاتون اپنے نوعمر بیٹے کو تخت پر بٹھانا چاہتی تھی۔ اس نے امراء کو رام کیا اور اہم شخصیات سے معاملات طے کرنے کے بعد برکیاروق کو قید کرلیا۔ محمود اس وقت نہایت کم عمر تھا اور سلطان کے طور پر اس کے نام کے اعلان کے لیے عباسی خلیفہ سے بھی اجازت لے لی گئی، لیکن صورتِ حال خراب ہوتی چلی گئی۔ ادھر برکیاروق کی حقیقی والدہ زبیدہ بیگم نے بھی اشرافیہ اور دوسری بااثر شخصیات سے رابطہ کیا اور ان کی مدد سے کسی طرح اصفہان میں قید اپنے بیٹے کو آزاد کروا لیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ انہی امراء کی مدد سے ملک شاہ کا تخت بھی حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اس وقت ترکان خاتون اپنے بیٹے محمود اول کے ساتھ دارالخلافہ بغداد میں تھی اور اسے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ ادھر فوج نے برکیاروق کا ساتھ دیا اور یوں ان کی حکومت مستحکم ہو گئی۔ مگر اس دوران برکیاروق کو اپنے ہی خاندان میں مزاحمت اور بغاوت کا سامنا اور کئی سازشوں اور یورشوں سے بھی نمٹنا پڑا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ خوں ریز تصادم، باغیوں اور سرکش گروہوں کو کچلنے کے بعد جب تخت کے تمام دعوے دار ختم ہو گئے، تو برکیاروق نے مکمل طور پر سلطنت کو سنبھالا۔ عباسی خلیفہ نے سلطان برکیاروق کو بغداد طلب کیا اور خلعت سے نوازا۔ ان کے نام کا خطبہ جامع بغداد میں پڑھوایا اور سلطنت کے اختیارات برکیاروق کو سونپتے ہوئے ان کی حکم رانی کا اعلان کیا۔ برکیاروق نے بعد میں کئی علاقوں کے سرداروں اور حکم رانوں کو اپنا مطیع اور تابع فرمان بنایا۔ لیکن امورِ سلطنت کو سنبھالتے ہوئے دور دراز کے علاقوں پر ان کا اپنی گرفت مضبوط رکھنا اور امراء و سپاہ سے جواب دہی اور ان پر اپن اثر و رسوخ قائم رکھنا آسان نہیں رہا۔ اسی عرصے میں ان کی والدہ زبیدہ بیگم کو قتل کر دیا گیا اور حالات اتنے خراب ہوئے کہ خود سلطان برکیاروق کو بغداد چھوڑنا پڑا۔ بعد میں وہ واپس ہوئے تو اپنے بھائی سے جنگ لڑنا پڑی اور جنگوں کا یہ سلسلہ جانی و مالی نقصان کے ساتھ بالآخر چند شرائط پر تمام ہوا۔ محمود اور سلطان برکیاروق نے اپنے علاقوں اور شہروں کی مستقل حکم رانی پر ایک معاہدہ کر لیا۔
الغرض سلطان برکیاروق کا دور لڑائیوں اور بغاوتوں کو فرو کرتے گزر گیا۔ وہ ایک مرض میں مبتلا ہوئے اور اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے اپنے بیٹے ملک شاہ دوم کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تھا جو اس وقت محض پانچ سال کا تھا۔ برکیاروق کی تدفین اصفہان میں کی گئی۔