علم و ادب کے شیدا ہر دور میں پطرس بخاری کی تحریروں کا لطف اٹھانے کے ساتھ ان کے قلم کی روانی، شگفتہ بیانی اور طرزِ تحریر کا انفرادیت کے قائل رہیں گے۔ آج پطرس کا یومِ وفات ہے۔
ایک کتاب کے دیباچہ کی حسبِ ذیل سطریں پطرس کے زورِ قلم اور محاورات کے برجستہ استعمال کی خوب صورت مثال ہیں۔ ملاحظہ کیجیے: "اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔”
پطرس بخاری کی وجہِ شہرت ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن اُن کے انشائیے، تنقیدی مضامین اور تراجم پر مبنی کتابیں بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ پطرس بخاری کو ہمہ جہت شخصیت کہا جاتا ہے جو صرف انہی اصنافِ ادب تک محدود نہیں رہے بلکہ انھوں نے خود کو ایک صحافی اور بہترین صدا کار کے طور پر بھی منوایا۔ تخلیقی کاموں کے ساتھ ان کی اپنے شعبہ اور کام پر گرفت بھی قابلِ ذکر ہے۔ وہ ریڈیو کے ماہرِ نشریات اور زبردست براڈ کاسٹر تھے۔ ریڈیو پر تخلیقی کام ہی نہیں، انھوں نے انتظامی امور اور تکنیکی معاملات کو بھی سنبھالا اور اپنی ٹیم سے خوب کام لیا۔
پطرس بخاری ان ادیبوں اور مزاح نگاروں میں سے ایک تھے جو ابتذال اور پھکڑ پن کا راستہ روکتے ہوئے اپنی تحریروں سے ثابت کرتے ہیں کہ شائستہ طنز و مزاح کیا ہوتا ہے اور شگفتہ نگاری کا مطلب کیا ہے۔ وہ اپنے دور کے باکمال اور بڑے ادیبوں رشید احمد صدیقی، عظیم بیگ چغتائی، مرزا فرحت اللہ بیگ، غلام احمد فرقت کاکوروی، شفیق الرّحمٰن، شوکت تھانوی پر مشتمل کہکشاں میں شامل تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اردو ادب میں پطرس بخاری کا قد ان کے ہم عصروں میں بہت بلند نظر آتا ہے۔ اس کا اعتراف معروف مزاح نگار رشید احمد صدیقی نے یوں کیا، "ظرافت نگاری میں پطرس کا ہم سَر ان کے ہم عصروں میں کوئی نہیں۔ بخاری کی ظرافت نگاری کی مثال داغ کی غزلوں اور مرزا شوق کی مثنویوں سے دی جا سکتی ہے۔”
فن و ادب کا یہ بڑا نام ایک ماہرِ تعلیم اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی ممتاز ہوا۔ پطرس بخاری گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کے پروفیسر اور آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات بیش بہا ہیں۔ انگریزی زبان پر ان کو عبور حاصل تھا اور انھوں نے انگریزی سے کئی کتابوں کے اردو تراجم کیے جو قارئین میں بہت مقبول ہوئے۔
پشاور میں 1898 میں پیدا ہونے والے پطرس بخاری کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پطرس نے فارسی، پشتو اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ پاکستان بنا تو یہاں بھی ریڈیو کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ کالج کے زمانے میں ہی پطرس نے معروف مجلّے ‘‘راوی’’ کی ادارت سنبھال لی تھی اور اسی زمانے میں باقاعدہ لکھنے کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ انھیں انگریزی سے کیمبرج پہنچے کے بعد بڑا لگاؤ ہوگیا تھا اور عالمی ادب کا خوب مطالعہ کیا۔
بخاری صاحب کے دل میں پیدائشی خرابی تھی۔ عمر کے ساتھ ساتھ انھیں دیگر عوارض بھی لاحق ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ وہ اکثر بے ہوش ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا، لیکن بخاری صاحب دفتر جاتے رہے۔ 1958 میں پطرس نیویارک میں سرکاری کام کی غرض سے ٹھہرے ہوئے تھے اور وہیں 5 دسمبر کو اچانک ان کی زندگی کا سفر تمام ہوگیا۔ انھیں امریکہ ہی میں دفن کیا گیا۔
بخاری صاحب کو خان لیاقت علی خاں نے بطور سفارت کار منتخب کیا تھا۔ وہ اپنے اوّلین دورۂ امریکہ میں انہی کو اپنے ساتھ بطور ترجمان لے گئے تھے۔ پچاس کے عشرہ میں پطرس بخاری نے اقوامِ متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دیے۔ بعد میں وہ اقوامِ متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بھی مقرر ہوئے۔
پطرس کے شگفتہ و سنجیدہ مضامین اور تراجم کے علاوہ ان کی تالیف کردہ کئی کتب شایع ہوچکی ہیں۔ برجستہ گو، حاضر دماغ اور طباع پطرس بخاری کی مقبول تحریروں میں ہاسٹل میں پڑھنا، مرحوم کی یاد میں، کتّے، میبل اور میں شامل ہیں۔
پطرس کتّے کے عنوان سے اپنے مضمون میں وہ لکھتے ہیں. ‘‘آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہو گا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارِ گناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دُم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔
سڑک کے بیچوں بیچ غور و فکر کے لیے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیو جانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سَر کو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا۔ صورتِ حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔
کسی نے ایک چابک لگا دیا تو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اٹھ کر ایک گز پرے جا لیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کر دیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔’’
حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ہلالِ امتیاز دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہاں ہم ان کے ایک رفیقِ کار عشرت رحمانی کی تحریر سے وہ اقتباس نقل کررہے ہیں جس میں بخاری صاحب کی شخصیت اور ان کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ عشرت رحمانی لکھتے ہیں: "بخاری صاحب ضابطہ و قاعدہ کے سختی سے پابند ہونے کے باوجود ہر معاملے کو چٹکی بجاتے باتوں باتوں میں طے کر دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل مسئلہ کو نہایت خندہ پیشانی سے باآسانی حل کرنا ان کے ضابطہ کا خاصہ تھا۔ ان کی ضابطہ کی زندگی کے بے شمار واقعات و مطائبات مشہور ہیں جن کا بیان اس مختصر مضمون میں دشوار ہے وہ اپنے تمام ماتحت اہلکاروں سے ایک اعلیٰ افسر سے زیادہ ایک ناصح مشفق کا سلوک اختیار کرتے۔ ہر شخص کی ذہنی صلاحیت اور قابلیت کو بخوبی پرکھ لیتے۔ اس کے ساتھ اسی انداز سے ہم کلام ہوتے اور اس کے عین مطابق برتاؤ کرتے۔ شگفتہ بیانی ان کا خاص کمال تھا۔ اور ہر شخص کے ساتھ گفتگو کے دوران میں اس کا دل موہ لینا اور بڑی سے بڑی شخصیت پر چھا جانا ان کا ادنیٰ کرشمہ تھا۔ ان کے حلقہٴ احباب میں سیاسی لیڈر، سرکاری افسران اعلیٰ، پروفیسر، عالم فاضل اور ادیب و شاعر سب ہی تھے لیکن سب ہی کو ان کی لیاقت اور حسنِ گفتار کا معترف پایا۔ ان احباب میں سے اکثر ان کے ضابطہ کے کاموں میں سفارشیں بھی کرتے لیکن وہ تمام معاملات میں وہی فیصلہ کرتے جو حق و دیانت کے مطابق ہوتا۔ لطف یہ ہے کہ خلافِ فیصلہ کی صورت میں بھی کسی کو شکایت کا موقع نہ دیتے اور بڑے اطمینان و سکون سے اس طرح سمجھا کر ٹال دیتے کہ صاحبِ معاملہ مطمئن ہونے پر مجبور ہو جاتا۔”