سعودی عرب میں وزارت داخلہ کے حکام کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے کہ لبنانی شہری کے قتل کا جرم ثابت ہونے پر مصری کی سزائے موت پر عمل درآمد کردیا گیا۔
سعودی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کی جانب سے جاری تفصیلی بیان میں کہا گیا ہے کہ ریاض میں مقیم مصری شہری احمد عطیہ کا لبنانی باشندے حسین علی خزعلی سے کسی بات پر اختلاف ہو گیا تھا جس پر ملزم نے اسے قتل کردیا تھا۔
واردات کی اطلاع ملتے ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے کی ٹیموں نے ملزم کی تلاش شروع کر دی۔ تفتیشی ٹیموں نے جلد ہی ملزم کا سراغ لگا کر اسے حراست میں لے لیا۔
ابتدائی تحقیقات میں ہی ملزم نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تمام واقعات سے تحقیقاتی ٹیموں کو مطلع کردیا۔ ادارہ پراسیکیوشن نے قتل کا مقدمہ فوجداری عدالت کو بھیجا جہاں تمام شواہد کودیکھتے ہوئے مصری شہری کو موت کی سزا کا حکم سنا دیا۔
ابتدائی عدالت کے فیصلے کو اپیل کورٹ نے بھی بحال رکھا بعدازاں ایوان شاہی سے سزائے موت پر عمل درآمد کی توثیق کردی گئی۔
واضح رہے کہ سعودی عرب میں رواں سال 100 سے زائد غیر ملکیوں کو تختہ دار پر لٹکایا جاچکا ہے، رواں سال سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں کی مجموعی تعداد 101 ہو گئی، جس میں 21 پاکستانی بھی شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے حوالے سے اے ایف پی نے کہا ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 16 نومبر کو ایک یمنی شہری کو جنوب مغربی علاقے نجران میں منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں سزائے موت دیدی گئی۔
رپورٹس کے مطابق 2023 اور 2022 میں 34 غیر ملکیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی جبکہ یہ تعداد گزشتہ تین سالوں کے مقابلے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
ای ایس او ایچ آر کے مطابق یہ تعداد اب تک کی سب سے زیادہ ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ سعودی عرب نے ایک سال میں اتنے زیادہ غیر ملکیوں کو سزائے موت دی ہے۔
مقتدی الصدر کا شام کی صورتحال پر اہم بیان
اپنے سخت تعزیری قوانین کے باعث سعودی عرب کو بین الاقوامی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2023 میں سعودی عرب چین اور ایران کے بعد تیسرے نمبر پر تھا جہاں سب سے زیادہ لوگوں کو سزائے موت دی گئی۔