پرانے وقتوں میں بہرام نامی ایک بادشاہ گزرا ہے۔ وہ بہت خوبصورت، نیک سیرت، رحم دل اور انصاف پسند تھا۔ اس کے دور میں عوام خوش حال تھے۔ لیکن ایک بات بہت عجیب تھی کہ بادشاہ کبھی اپنے محل سے باہر نہیں نکلتا تھا اور کسی نے کبھی اس کی صورت نہیں دیکھی تھی۔ ملک کے تمام حکومتی امور اس کا وزیر سر انجام دیا کرتا تھا۔ اس کی رعایا کے علاوہ قرب و جوار میں رہنے والے جنات بھی اس کی صورت دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ سب کی بڑی آرزو تھی کہ وہ بادشاہ کا دیدار کریں لیکن اس سے محروم تھے۔
ایک دیو جس کا نام سفید دیو تھا وہ دن رات بادشاہ کو دیکھنے کی ترکیبیں سوچتا رہتا۔ ایک دن دل میں یہ ٹھان کر کہ بادشاہ کو دیکھ کر رہوں گا وہ محل کی طرف چل پڑا اور دروازے پر کر پہنچ کر ملازمت کی درخواست کی۔ اسے خدمت گاروں میں رکھ لیا گیا۔ کافی عرصہ گزر گیا لیکن بادشاہ کو پھر بھی نہ دیکھ سکا۔ اس کے ذاتی کمرہ تک تو اس معمولی خدمت گار کو رسائی تھی ہی نہیں اور اس کی کوئی صورت نظر بھی نہیں آتی تھی۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ بادشاہ کے پاس صرف اس کا وزیر بلا روک ٹوک جا سکتا تھا۔
ایک دن اسے سوجھی کہ کیوں نہ وزیر کی کھال میں گھس کر اندر داخل ہوا جائے۔ چنانچہ اگلے دن وزیر جب بادشاہ کو سلام کرنے کی غرض سے آیا تو وہ اس کی کھال میں داخل ہو گیا۔ بادشاہ کے خاص کمرے کے دروازے پر پہنچا تو خدام نے با آواز بلند وزیر کی آمد کی اطلاع دی۔ اجازت ملنے پر وزیر کمرے میں داخل ہوا اور بادشاہ کو سلام کرکے اپنی مخصوص نشست پر جا بیٹھا۔ بادشاہ اور وزیر امور سلطنت پر گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں وزیر نے عرض کی بادشاہ سلامت رعایا آپ کو ایک نظر دیکھنے کی بے حد متمنی ہے۔بہت سے لوگ تو آپ کو دیکھنے کی حسرت دل میں لئے اس جہان سے رخصت ہو چکے ہیں۔آپ اپنی رعایا کی یہ آرزو پوری فرما دیجیے۔ بادشاہ نے کہا مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میری رعایا مجھے اس قدر چاہتی ہے۔ کل صبح ہم شکار کے لئے نکلیں گے اور ہمارے ساتھ تمام امراء اور خاص ملازمین بھی ہمرکاب ہوں گے۔ وزیر باہر نکلا تو بادشاہ کا حکم تمام متعلقہ لوگوں تک اس تاکید کے ساتھ پہنچا دیا کہ صبح وقت مقررہ پر سب لوگ تیار رہیں۔
سفید دیو وزیر کی کھال سے نکل کر شکار گاہ کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے آپ کو ایک نہایت خوبصورت سفید گھوڑے کے روپ میں ڈھال لیا جس پر سنہری زین کسی ہوئی تھی اور اس کی باگیں بھی سنہری تھیں۔ سفید دیو نے رات اسی شکل میں وہیں گزار دی۔
اگلی صبح بادشاہ پورے تام جھام کے ساتھ اپنے محل سے نکلا۔ راستے کے دونوں طرف رعایا بیتاب نظروں سے اپنے بادشاہ کو ایک نظر دیکھنے کے لیے قطار اندر قطار کھڑی تھی۔ بادشاہ لوگوں کے نعروں کا جواب دیتا ہوا اپنے مصاحبوں کے جلو میں شکار گاہ کی طرف بڑھتا چلا گیا۔
بادشاہ کے آگے آگے چلنے والے مددگار شکاری جب شکار گاہ کے قریب پہنچے تو سنہری زین اور سنہرے لگاموں والے خوبصورت سفید کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھیں یہ بہت پراسرار لگا تھا اور وہ بادشاہ کے پاس واپس گئے اور اس پراسرار گھوڑے کے بارے میں بتایا۔ بادشاہ بھی اشتیاق میں گھوڑے کو ایڑھ لگا کر وہاں جا پہنچا۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا کہ جاؤ اس گھوڑے کی سواری کر کے دکھاؤ۔ وزیر نے عرض کیا حضور یہ گھوڑا آپ کے شایان شان ہے اور لگتا ہے کہ صرف آپ ہی کی سواری کے لیے تخلیق کیا گیا ہے۔ بادشاہ اپنے گھوڑے سے اتر ا اور بسم اﷲ پڑھ کر سفید گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ بادشاہ اپنے وزیر اور مصاحبوں کو واپسی کا حکم دے کر مڑ گیا۔ بادشاہ نے جب محسوس کیا کہ اس کی رانوں تلے ایک شاندار سواری ہے تو اسے ایڑھ لگا دی۔ گھوڑا اتنا تیز رفتار تھا کہ اس نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پیچھے آنے والے اس کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے۔
ایک جگہ پہنچ کر گھوڑا اپنی اصلی یعنی سفید دیو کی شکل میں آ گیا اور بادشاہ کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر آسمان کی طرف اڑ گیا۔ ایک بہت خوبصورت مکان میں پہنچ کر دیو نے بادشاہ بہرام کو کندھے سے اتارا۔ عزت کے ساتھ ایک عالیشان مسند پر بٹھایا اور سلام کر کے عرض کیا۔ آج میری دلی آرزو پوری ہوئی اور میں نے آپ کو دیکھ لیا۔ اب میں چاہتا ہوں آپ میرا بیٹا بن کر یہیں رہیں۔ آج سے آپ میری تمام دولت کے مالک ہیں۔ بادشاہ دیو کے آگے بے بس تھا اس لئے خاموشی سے اس کی ہر بات مان لی۔ وہ اب سفید دیو کی تحویل میں تھا۔ دیو اس سے روز ملتا اور نہایت محبت، شفقت اور عزت سے پیش آتا۔ کئی پریوں کو اس کی خدمت پر مامور کر دیا گیا تھا۔ وہ ان کے ساتھ باغات کی سیر کو جاتا تھا۔
ادھر جب بادشاہ اپنے محل واپس نہ پہنچا اور کئی روز گزر گئے تو امرائے دربار نے رو پیٹ کر وزیر کو اپنا بادشاہ چن لیا اور عنان حکومت اس کے ہاتھوں میں سونپ دی۔ دن یونہی گزرتے رہے۔ ایک دن سفید دیو کو اپنے بھائی کی طرف سے اس کے بیٹے کی شادی میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ وہ بہرام بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بولا کہ وہ کچھ دنوں کو اپنے بھتیجے کی شادی میں شریک ہونے جا رہا ہے۔ پریاں موجود ہیں جو آپ کا پورا خیال رکھیں گی۔ پریوں کو سفید دیو نے جاتے ہوئے کہا کہ ایک بات کا خیال رکھنا کہ جس باغ کا دروازہ بند ہے اسے کبھی نہ کھولنا۔
اگلے روز بہرام پریوں کے ساتھ گھومتا ہوا جب بند دروازے والے باغ تک پہنچا تو پریوں کو اس کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ پریوں نے کہا کہ ہمیں یہ دروازہ کھولنے کا حکم نہیں ہے۔بادشاہ بہرام نے بہت اصرار کیا لیکن وہ نہیں مانیں۔ دراصل وہ باغ سفید دیو نے ایک نہایت حسین و جمیل پری شہر بانو کے لیے بنایا تھا۔ شہر بانو اس باغ میں ایک طرح سے قید تھی۔دیو اس کی محبت میں گرفتار تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن شہر بانو رضا مند نہیں تھی۔ اس بات سے دیو سخت ناخوش اور نالاں تھا۔ بادشاہ بہرام نے اگلے روز پھر دروازہ کھولنے کی ضد کی۔ اس نے پریوں سے کہا کہ اگر آج تم نے دروازہ نہ کھولا تو میں اپنی جان لے لوں گا۔ پریاں یہ سوچ کر ڈر گئیں کہ اگر یہ مرگیا تو سفید دیو ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔چنانچہ انہوں نے باغ کادروازہ کھول دیا۔ بہرام جب باغ میں داخل ہوا تو اس کی خوبصورتی دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ باغ کیا تھا جنت کا ٹکڑا تھا۔ وہاں ایک بید کا درخت تھا جس سے آنسوؤں کی طرح خوشبودار پانی نکل کر تالاب کو معطر کر رہا تھا۔ اس روز بہرام گھوم گھام کر اپنے کمرے میں واپس آ گیا۔ اگلی صبح پھر اس باغ میں چلا گیا اور تالاب کے قریب ایک جھاڑی میں گڑھا کھود کر اس میں چھپ گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے دیکھا کہ سات کبوترآکر بید کے درخت پر بیٹھ گئے۔ تھوڑا سستا لئے تو اس میں سے ایک بولا آؤ شہر بانو کی آمد سے پہلے تالاب میں ڈبکی لگالیں۔ یہ کبوتر اصل میں پریاں تھیں اور شہر بانو کی خدمت پر مامور تھیں۔ تالاب میں ڈبکی لگا کر وہ ساتوں اڑ گئیں اور کچھ ہی دیر بعد شہر بانو کو اپنے جھرمٹ میں لا کر تالاب کے کنارے ایک پلنگ پر بٹھا دیا۔ شہربانونے آتے ہی آدم بو آدم بو چلانا شروع کردیا اور حکم دیا کہ کوئی آدم زاد باغ میں گھس آیا ہے فوراً اسے ڈھونڈھ کر لاؤ۔ پریوں نے بہت تلاش کیا لیکن کوئی نہ ملا۔
شہر بانو کا ملکوتی حسن دیکھ کر بادشاہ بہرام اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اب وہ اسے حاصل کرنے کا خواہاں تھا۔ اس نے گائے کے گوبر سے بنے اپلوں کو جلایا اور شہر بانو کے وہ کپڑے اٹھا کر انہیں دھونی دینے لگا جو اس نے تالاب میں نہانے کے لیے جاتے وقت اتارے تھے۔ پریاں یہ دیکھ کر غائب ہو گئیں اور شہر بانو اپنی برہنگی کی وجہ سے تالاب میں رہ گئی۔ اس نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا تم جو بھی ہو میرا لباس مجھے واپس کر دو۔ بہرام نے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن پھر شہر بانو نے منت کی اور پھر ایک پری نے کہا تو بہرام نے دھونی لگے ہوئے کپڑے اس کی طرف اچھال دیے۔ پری نے کپڑے پہن لئے لیکن کپڑوں میں اپلوں کی دھونی کی وجہ اس کی اڑنے کی طاقت ختم ہو گئی تھی۔ یہ سب دراصل بادشاہ جانتا تھا اور ایک منصوبے کے تحت ایسا کیا تھا۔ اب اس نے تالاب میں موجود شہر بانو کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے گھر لے آیا۔ وہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔
ادھر سفید دیو اپنے بھتیجے کی شادی میں شرکت کے بعد واپس آگیا اور شہزادہ بہرام کو سلام کرنے چلا گیا۔ دیو کی آواز سن کر دونوں بہت گھبرائے۔ بہرام نے ڈر کر شہر بانو کو چھپا لیا۔ دیو مزاج پرسی کے بعد واپس چلا گیا۔ اگلے روز جب دیو حاضر ہوا اور بہرام کو خاموش اور افسردہ پایا تو پوچھا تو اس نے سب کچھ بتا دیا اور یہ سن کر سفید دیو کو غصہ تو بہت آیا کیونکہ وہ خود بھی شہر بانو کو چاہتا تھا۔ لیکن بہرام کو بیٹا بنا چکا تھا اس لیے اسے معاف کردیا اور دونوں کا نکاح کروا دیا۔
کافی عرصہ بیت گیا۔ ایک روز شہزادہ بہرام نے ایک بھیانک خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ کہ اس کے ملک میں عنان حکومت ایک شہنائی بجانے والے میراثی کے ہاتھوں میں آ چکی ہے جو اس کی بیوی اور بچوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ اس نے شہربانو کو یہ بتایا اور دونوں نے سفید دیو کی خدمت میں حاضر ہو کر اس سے زمین پر جانے کی اجازت طلب کی جو فوراً مل گئی۔ دیو نے اپنا ایک بال اسے دیا اور کہا جب میری ضرورت ہو تو اسے آگ دکھا دینا میں مدد کو حاضر ہو جاؤں گا۔ بہرام اور شہر بانو ایک گھنٹے کے بعد ملک کی سرحد پر پہنچ گئے۔ عین سرحد پر انہیں ایک چھوٹا سا مکان نظر آیا۔ دروازے پر دستک دی تو ایک بوڑھا آدمی باہر نکلا اور بات کرنے پر دونوں کو گھر کے اندر لے گیا۔ اندر پہنچ کر اس نے شہزادہ بہرام کو پہچان لیا کیوں کہ وہ اس کا اتالیق تھا۔ وہ اتالیق کے کہنے پر چند روز اس کے گھر رک گیا اور ایک روز ملک کا وہی حکمران جسے بہرام کی جگہ بادشاہ مقرر کیا گیا تھا شکار کے لئے ادھر آنکلا۔ جب وہ بوڑھے کے مکان کے قریب سے گزرا تو اس کی نظر کھڑکی میں بیٹھی شہر بانو پر پڑ گئی جس کے حسن نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کر کے رکھ دیا۔ اس نے اپنے دو پیادوں کو حکم دیا کہ گھر کے اندر جاؤ اور وہاں جو عورت ہے اس سے کہو کہ ملک کا بادشاہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ دونوں پیادے جب گھر میں داخل ہوئے تو شہر بانو کی خوبصورتی دیکھ کر بیہوش ہو گئے۔ کافی دیر تک جب وہ باہر نہیں آئے تو اس نے شادی کے پیغام کے ساتھ دو اور پیادے اندر بھیجے۔ پیادوں نے بادشاہ کا پیغام شہر بانو کو پہنچایا تو اس نے جواب دیا میں شادی شدہ ہوں تمہارے بادشاہ سے شادی نہیں کر سکتی۔ بادشاہ کو جب یہ جواب ملا تو اس نے حکم دیا کہ اسے زبردستی اٹھا لاؤ۔ لیکن وہ جادوئی لباس پہن کر بوڑھے اتالیق کو اپنا پیغام دے کر پرواز کرگئی۔
بوڑھے اتالیق نے شہر بانو کا پیغام سن لیا اور شہزادہ بہرام کو بتانے دوڑا۔ یہ جان کر بہرام نے آگ جلائی اور سفید دیو کا دیا ہوا بال اس میں پھینک دیا۔ دیو فوراً حاضر ہو گیا اور بادشاہ کے پیادوں اور تمام لشکری کو ہڑپ کر گیا۔
اب بہرام نے محل کا رخ کیا اور سب اسے دیکھ کر حیران ہوگئے۔ اس نے بوڑھے اتالیق کو قائم مقام بادشاہ مقرر کیا رعایا کو نصیحت کی کہ میرے واپس آنے تک ان کی اطاعت تم پر فرض ہے۔ میں اپنی بیوی شہر بانو کو لینے شہر شاسکن جا رہا ہوں۔ لیکن یہاں ایک مصیبت یہ تھی کہ وہ اس شہر شاسکن کا راستہ نہیں جانتا تھا اور پھر سفید دیو کے ایک ساتھی نے مدد کی تو وہ اس نئے سفر پر روانہ ہوسکا جہاں شہر بانو اس کی منتظر تھی۔ بہرام اور شہر بانو دوبارہ اپنے ملک پہنچے تو رعایا نے پورے جوش و خروش کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ بادشاہ کی حیثیت سے بہرام نے بوڑھے اتالیق کو اپنا وزیر مقرر کر لیا اور سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
(ہنزہ کی لوک کہانی کا انگریزی سے ترجمہ اور تلخیص)