قدیم استاد شاعر شمس الدّین فیض حیدر آباد دکن کے دربارِ آصفی سے وابستہ اور منصب و جاگیر سے سرفراز تھے۔ اسی سرزمینِ دکن کے ڈاکٹر زور ؔ نے بھی ادبی دنیا میں شاعر، افسانہ نگار، بلند پایہ نقاد، با کمال محقق اور ادبی مؤرخ و سوانح نگار کے طور پر خوب شہرت پائی اور خاص طور پر لسانیات و دکنیات میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔
ڈاکٹر صاحب ایک روز دکن کے استاد شاعر شمس الدین متخلص بہ فیض سے متعلق تحقیقی مضمون لکھنے کی غرض سے ان کی قبر پر پہنچے۔ یاد رہے کہ فیض صاحب 27 نومبر 1866ء میں انتقال کرگئے تھے۔ ڈاکٹر زور ؔنے قبر پر حاضری کے وقت وہاں ایسا کچھ دیکھا، جو اُن کے لیے باعثِ حیرت تھا اور اس کا تذکرہ ادبی رسالہ ”سب رس” کے ڈاکٹر زور ؔنمبر میں ملتا ہے۔
اس کی راوی ڈاکٹر سیدہ جعفر ہیں جو ”سب رس” کی اشاعتِ خاص میں محی الدین قادری زور ؔپر اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ ایک روز ڈاکٹر زور ؔکہنے لگے کہ ”بڑی تلاش اور تحقیقِ بسیار کے بعد لال دروازے کے اس گورستان کا پتا چلایا جہاں اوائل دور کے قدیم استاد شاعر میر شمس الدین فیض ؔکا مدفن تھا۔ یہاں ہر طرف ایک ہُو کا عالم تھا۔ قبروں کی حالت انتہائی شکستہ تھی۔ ہر طرف مٹی کے ڈھیر اور کوڑا کرکٹ کے انبار لگے ہوئے تھے۔ مقامی لوگوں کی نشان دہی پر جب میں فیضؔ صاحب کی قبر پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کی قبر دوسروں کے مقابلے میں صاف اور گرد و غبار سے پاک تھی۔ میں اپنی جگہ حیران تھا کہ اس ویرانے میں فیض صاحب کے مزار کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟ غرض میں فاتحہ خوانی کے بعد گھر واپس آگیا، لیکن یہ سوال میرے ذہن میں ہنوز موجود تھا۔ میں نے فیض ؔکا دیوان اٹھایا، اور اس سوال کا اعادہ کرتے ہوئے دیوان کھولا اور دائیں ہاتھ کے پہلے صفحے پر دیکھا تو سب سے اوپر یہ شعر لکھا پایا:
؎ موجۂ بادِ بہارِ چمنستانِ بہشت
مشہدِ فیضؔ پہ جاروب کشی کرتا ہے