عالمِ اسلام میں کئی نام اپنے علمی و تحقیقی کاموں کی بدولت ممتاز ہوئے اور آج جدید سائنس اور غیرمسلم بھی ان کے کارناموں کا اعتراف کرتے ہیں۔ انسانی جسم میں دورانِ خون کا جدید نظریہ ولیم ہاروے سے منسوب کیا جاتا ہے، لیکن صدیوں پہلے ابن النفیس نے اس پر اپنی تحقیق کے بعد اپنا نظریہ پیش کیا تھا۔
انسانی جسم میں خون کی گردش کا نظریہ پیش کرنے والے ابن النفیس کا نام مسلمانوں کے اُس سنہرے دور کی یاد بھی تازہ کر دیتا ہے جس میں علمیت کا اعلیٰ معیار قائم ہوا اور ایجاد و دریافت کے ساتھ فلسفہ و فنون لطیفہ میں بے مثال کام ہوا۔
محققین کے مطابق ابن النفیس کا انتقال 17 دسمبر 1288ء کو ہوا تھا۔ آج دنیائے طبّ کے اس عالم فاضل کا یومِ وفات ہے۔ تاہم یہ وہ شخصیت ہیں جن کی علمیت اور کام سے یہ دنیا پچھلی صدی میں واقف ہوئی ہے۔ وہ دمشق میں سنہ 1210ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ابن النفیس کو اپنے دور کا ماہر طبیب اور ایک محقّق ہی نہیں اصولِ فقہ، منطق اور صرف و نحو کا ماہر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ دمشق میں بیمارستانِ نوری میں طبّ کی تعلیم حاصل کرنے والے ابن النفیس بعد میں قاہرہ چلے گئے جو اس دور میں عملی اور نظری طبّ کے اعلیٰ مرکز کے طور پر مشہور تھا۔ وہاں اس وقت طبّ و جراحی کے کئی ماہر اور حیاتیات کے مضمون میں عالم فاضل شخصیات موجود تھیں جن سے استفادہ کرنے والوں میں ابن النفیس بھی شامل ہیں۔
ابن النفیس کی طبّ میں دل چسپی اور ان کی غور و فکر کی عادت نے انھیں مسلسل تحقیق اور تجربات پر آمادہ کیا اور ایک وقت آیا جب انھیں “رئیس الاطباء “ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔ بعد میں وہ بیمارستانِ ناصری سے منسلک ہوئے اور علاج معالجے کے ساتھ ساتھ وہاں طبّ کی تعلیم بھی دیتے رہے۔ ابن النفیس نے اپنے علم اور تجربات کو کتابی شکل میں بھی محفوظ کیا۔ ان کی سب سے بڑی تصنیف “الشامل فی الطبّ” ہے جو بدقسمتی سے مکمل نہیں ہو سکی، لیکن اس کا ایک ضخیم مخطوطہ دمشق میں محفوظ ہے۔ مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس نے امراضِ چشم پر بھی تحقیق کی اور ایک تصنیف یادگار چھوڑی۔ کہتے ہیں کہ اس کا نسخہ بھی یورپ میں محفوظ ہے۔
مسلمان ماہرِ طبّ ابن النفیس کا چرچا پچھلی صدی میں اس وقت ہوا، جب ایک نوجوان عرب طبیب امین اسعد خیر اللہ نے اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کیا کہ ابن النفیس نے اپنی شرح “تشریحِ ابن سینا” میں ابنِ سینا اور جالینوس سے اختلاف کیا تھا۔ اس کے ساتھ انھوں نے دورانِ خون سے متعلق چند اہم انکشاف بھی کیے تھے۔ مصنّف نے اپنے مقالے میں لکھا کہ خون کی گردش کا جو طبّی نظریہ صدیوں پہلے انھوں نے دیا تھا، اسی کو بنیاد بنا کر بعد میں مغربی سائنس دانوں نے مزید تحقیق کی، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ انھوں نے ابن النفیس کا نام نہیں لیا۔ دنیا کو اس مسلمان ماہرِ طبّ کے نظریۂ دورانِ خون کا علم اس لیے بھی نہیں ہو سکا کہ ان کی اس شرح کے تراجم اُس دور میں نہیں ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اس نظریے کی تفصیل لاطینی میں ترجمہ کی گئی تھی، لیکن یہ بہت ناقص ترجمہ تھا اور اسی لیے یہ ماہرین کی نظروں میں نہیں آ سکا تھا۔
طبیب و محقق ابن النفیس کی تصانیف میں غیر طبّی موضوعات پر کتب بھی شامل ہیں جن میں سے ایک الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق بھی شامل ہے۔ ایک جگہ ان کا حلیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن النفیس طویل القامت اور دبلے پتلے تھے، لیکن صاحبِ مروّت اور علم و فن کی قدر دان مشہور تھے۔ انھوں نے شادی شدہ نہیں کی تھی اور اپنا گھر، ذاتی کتب خانہ اور اپنی جمع پونجی بھی طبّی تحقیق کے لیے دے دی تھی۔ ابن النفیس کا انتقال قاہرہ میں ہوا۔