جب کبھی کسی ادبی کانفرنس کے دوران کوئی خصوصی سیشن میرے لیے ترتیب دیا جاتا ہے تو وہاں کوئی نہ کوئی چاہنے والا بہر طور ایک سوال ضرور کرتا ہے کہ آپ کے بیشتر ناولوں بلکہ ڈرامہ سیریز میں شہر لاہور ایک کردار کی صورت بہر طور پس منظر میں موجود ہوتا ہے تو آخر یہ ایک ہی شہر کیوں؟
اور میرا جواب بھی بہر طور ایک ہی ہوتا ہے کہ یہ میرا شہر ہے، میں اسے جانتا ہوں اور یہ مجھے جانتا ہے۔ یہ میرے بچپن کا گواہ ہے، جوانی کا جنون ہے اور اب بڑھاپے کا آخری سہارا ہے۔ میرے ناولوں کی لینڈ اسکیپ ہمیشہ پاکستان کی سرزمین کی تحریر تصویر ہوتی ہے۔ بے شک میں نے کوئٹہ، کراچی، وادئ سوات یا غیر ملکی شہروں میں بھی اپنے کرداروں کو آباد کیا ہے لیکن یہ لاہور ہے جو میرے بیانیے کو قوت دیتا ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کی جانب سے جب ایک بار مجھے علی گڑھ، لکھنؤ اور دلّی کے پس منظر میں تحریکِ پاکستان کے حوالے سے ڈرامے تحریر کرنے کے لیے کہا گیا تو میں نے معذرت کر لی کہ میں ان شہروں کی بود و باش اور ثقافت اور روزمرہ کے رہن سہن کو کسی حد تک بیان تو کر جاؤں گا لیکن تحریر میں کچھ کمی رہ جائے گی کہ یہ میرے شہر نہیں ہیں، مجھ سے لاہور لکھوائیے۔
اگرچہ میرے والد صاحب گجرات کے ایک گاؤں چناب کے کناروں پر آباد ایک چھوٹے سے پسماندہ گاؤں جو کالیاں سے رزق روزگار کی تلاش میں نکلے اور لاہور میں آن بسے۔ لیکن میری پیدائش لاہور میں ہوئی اور یوں یہ شہر میرا ہو گیا۔ اگر کوئی شخص میری حیات کے شب و روز سے آگاہی رکھتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ میں نے آج سے نصف صدی پیشتر لاہور کے لیے دنیا کے بڑے بڑے شہروں کی آسائش بھری زندگی اور شاید کچھ من پسند چہروں کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ لاہور کا جو یار ہے۔۔۔ وہ میرا محبوب یار ہے اور اُن میں سے ایک کامران لاشاری ہے جس نے نہ صرف اس شہر کی مال روڈ کی عمارتوں کو بحال کیا بلکہ کھنڈر ہونے سے بچا لیا، اگرچہ اُس نے لکشمی مینشن سے بوجوہ تغافل اختیار کیا جسے ٹریڈر مافیا کا اژدہا نگل گیا، اُسے ڈھا کر وہاں حکومت وقت کے بیوپاریوں نے پلازے تعمیر کر دیے۔
میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ لاہور کا کیا حشر کر دیا گیا ہے البتہ ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جب لاہور ہائی کورٹ نے اورنج ٹرین کے منصوبے کے دوران لاہور کی تاریخی عمارتوں اور مندروں وغیرہ کی بربادی اور ملیا میٹی کے علاوہ شالیمار، جی پی او، چو برجی، لکشمی چوک اور کچھ گرجا گھروں کے چہروں کو، اُن کے منظروں کو بگاڑ دینے کے بارے میں ایک واضح فیصلہ سنایا تو اہل اقتدار نے اسے ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا اور کہا گیا کہ تاریخ کیا ہے، اسے پھر سے بنایا جا سکتا ہے اور جو لوگ لاہور بچاؤ کی تحریک میں شامل ہیں انہوں نے تو شاید لاہور دیکھا بھی نہیں ہوا۔ بصد ادب گزارش ہے کہ ان میں کامل خان ممتاز ایسا نابغۂ روزگار آرکیٹیکٹ شامل ہے جو لاہور کی ایک ایک اینٹ کو جانتا ہے۔ جس نے اپنے طرز تعمیر میں لاہور کی عمارتوں کے تاریخی چہرے شامل کیے۔ ان میں ڈاکٹر اعجاز انور ہے جس نے اسلامی طرز تعمیر میں ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے اور وہ ایسا مشہورِ عالم مصور ہے جس نے شہر لاہور کی تاریخی عمارتوں، حویلیوں، قدیم بازاروں، تہواروں اور جھروکوں کو مصور کیا ہے۔ وہ عمارتیں جو آپ نے کسی اورنج یا گلابی ٹرین کے لیے مسمار کر دی ہیں، اور ان میں بنگالی بلڈنگ اور جین مندر بھی شامل ہیں۔ اعجاز انور کی تصویروں میں محفوظ ہو چکی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر لوگ لاہور کو اعجاز انور کی واٹر کلر تصویروں کے حوالے سے پہچانتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ یہ لوگ لاہور کو نہیں جانتے۔ یہاں تک کہ آپ کے دانشور حواری انہیں غداری کی سند دیتے ہیں، ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے غیر محب الوطن کہتے ہیں۔ حضور لاہور آپ کے لیے الیکشن جیتنے کی ایک شکار گاہ ہے، شہر نہیں۔ آپ نے تو لاہور کو کبھی اختیار نہیں کیا، آپ نے تو اپنے لیے ایک نیا جاتی امرا آباد کیا تو آپ باہر والے کیا جانیں کہ لاہور کیا ہے۔ کامران لاشاری کے ہاتھ اگرچہ سرکاری طور پر بندھے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود میں اسے گنگا رام اور بھائی رام سنگھ کی طرح لاہور کا ایک محسن قرار دیتا ہوں۔ اندرون شہر کے گلی کوچوں اور حویلیوں کو جس طور اس نے بحال کیا ہے، مسجد وزیر خان اور شاہی حمام کی قدیم شانداری کو آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کیا ہے، میں اسے سلام کرتا ہوں۔
(اردو کے ممتاز ادیب، اور مقبول سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے ایک کالم سے اقتباس)