نئے سال کا پہلا ہفتہ بھی فلسطینی بچوں کے خون سے رنگ گیا۔ 2025 کے پہلے ہفتے کے دوران غزہ میں کم از کم 74 بچے شہید ہو گئے۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق اس سال کے پہلے سات دنوں کے دوران، غزہ سٹی، خان یونس اور جنوب میں اسرائیل کے نامزد کردہ "محفوظ زون” المواسی میں راتوں رات کیے گئے اسرائیلی حملوں میں 74 فلسطینی بچے مارے گئے ہیں۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا کہ غزہ کے بچوں کے لیے، نیا سال حملوں، محرومیوں، اور سردی کی بڑھتی ہوئی شدت اموات اور مصائب لے کر آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی طویل عرصے سے التوا میں ہے نئے سال کی المناک شروعات میں بہت سارے بچے مارے گئے یا اپنے پیاروں کو کھو چکے ہیں۔
یونیسیف نے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ بمباری کے علاوہ، بنیادی پناہ گاہ کی مسلسل کمی سردیوں کے درجہ حرارت کے ساتھ مل کر بچوں کے لیے سنگین خطرات لاحق ہیں۔
"ایک ملین سے زیادہ بچے عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں، اور پچھلے 15 مہینوں میں بے گھر ہونے والے بہت سے خاندانوں کے ساتھ، بچوں کو انتہائی خطرات کا سامنا ہے، 26 دسمبر سے، آٹھ نوزائیدہ بچے مبینہ طور پر ہائپوتھرمیا سے مر چکے ہیں”
فلسطین کے سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق تقریباً 15 ماہ قبل محصور فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے تباہ کن حملے شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی آبادی میں 6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
فلسطین کے مرکزی ادارہ شماریات (PCBS) نے ایک ریلیز میں کہا کہ تقریباً 100,000 فلسطینی انکلیو چھوڑ چکے ہیں جب کہ 55,000 سے زیادہ افراد کی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔
بیورو نے فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 45,500 فلسطینی، جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے ہیں، مارے جا چکے ہیں اور مزید 11,000 لاپتہ ہیں۔
پی سی بی ایس نے کہا کہ اس طرح، جنگ کے دوران غزہ کی آبادی 21 لاکھ سے کم ہو کر قریباً 160,000 رہ گئی ہے، جس میں دس لاکھ سے زیادہ یا کل باقی آبادی کا 47 فیصد، 18 سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے "غزہ کے خلاف وحشیانہ جارحیت کی ہے اور وہاں ہر قسم کی زندگی کو نشانہ بنایا ہے۔ انسان، عمارتیں اور اہم انفراسٹرکچر اور پورے خاندان کو سول رجسٹر سے مٹا دیا گیا۔