امریکی ریاست کیلی فورنیا کے جنگلات میں ہونے والی تباہ کن آتشزدگی کی شدت گزشتہ چار دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ جنگلات میں بھڑکنے والے شعلوں نے لاس اینجلس کے پُر فضا مقام پر بنے امراء اور شوبز ستاروں کے منہگے ترین اور عالیشان گھروں کو بھی راکھ کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ 2 ستمبر 1666ء کی ڈھلتی ہوئی شام کو لندن کے علاقہ "پڈنگ لین” میں بھی آتش زدگی کا ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جسے دنیا کی تاریخ کے خوف ناک حوادث میں شمار کیا جاتا ہے۔
امریکہ میں اس حادثے کے بعد لاکھوں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کئی فلمی ستاروں کے گھر بھی اس آگ نے نگل لیے ہیں جن میں گلوکارہ اور اداکارہ پیرس ہلٹن، گیت نگار ڈیان وارن، اداکارہ اینا فیرس، رکی لیک، یڈی مونٹگ اور اسپینسر پراٹ، مینڈی مور کے علاوہ مائلز ٹیلر کے گھر شامل ہیں۔ اس واقعے نے آسکر نام زدگیوں کی تاریخ بھی آگے بڑھوا دی ہے اور متعدد فلموں کے پریمیئر بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
اس وقت جہاں آگ پر قابو پانے اور لوگوں کی جان و مال کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے، وہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے کیوں کہ عام طور پر سال کے اس حصّے میں کیلی فورنیا کے جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات پیش نہیں آتے۔ تو کیا وہاں آگ لگائی گئی ہے؟
اس خوف ناک آگ نے پانچ صدی پہلے لندن کے اس واقعے کی یاد بھی تازہ کردی ہے جسے لندن کی سب سے بڑی آگ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ "پڈنگ لین” کی ایک بیکری کے تنور کے اندر بھڑکتے ہوئے شعلے کی وجہ سے پھیلنے والی آگ تھی جو رات کے دوسرے پہر بیکری کے کونے میں موجود خشک گھاس کے ذخیرے تک پہنچی اور پھر عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ ایک گنجان آباد حصہ تھا جس میں واقع بیکری کی عمارت دھڑا دھڑ جلنے لگی۔ اس دور میں زیادہ تر مکانات کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال بکثرت کیا جاتا تھا۔ پڈنگ لین سے ایک سڑک لندن برج کی طرف جاتی تھی اور صبح سویرے ہی اس آگ کی اطلاع شہر کے میئر تک پہنچ گئی۔ کہتے ہیں کہ وہ اس مقام پر پہنچا جہاں آگ بھڑک رہی تھی تو اسے یہ کوئی خطرناک معاملہ نہیں لگا اور اس کا خیال تھا کہ آگ پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔
لندن کی اس عظیم آتش زدگی سے متعلق ایک سرکاری افسر سیمول پی پائز نے اپنی ڈائری میں لکھا، ‘صبح سویرے تین بجے کے قریب مجھے ملازمہ نے جگا دیا۔ اس نے مجھے آگ کے بارے میں اطلاع دی۔ میں گھر کے پچھلی طرف کھلنے والی کھڑکی پر پہنچا، وہاں سے میں نے دیکھا کہ تقریباً چار فرلانگ کے فاصلے پر آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ آگ ”ٹارک لین‘‘ کے قریب و جوار میں کہیں لگی ہوئی ہے۔ میں واپس آیا اور دوبارہ بے فکری سے سو گیا۔’ اس کی آنکھ دوپہر سے ذرا پہلے کھلی تو معلوم ہوا کہ آگ پہلے سے زیادہ پھیل چکی ہے۔ وہ ”وائٹ ہال‘‘ پہنچا جب تک اس آگ کی خبر بادشاہ کو ہوچکی تھی۔ کسی کو یہ گمان تک نہ تھا کہ یہ آگ لندن کی تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔ وہ سب آگ کے ٹھنڈا ہونے کا انتظار کررہے تھے اور سوچ رہے تھے اس کی شدت میں کمی آئے تو اسے مکمل طور پر بجھانے کے لیے کوشش شروع کریں۔ لیکن یہ خیال بالکل غلط ثابت ہوا کہ آگ پر باآسانی قابو پایا جا سکے گا۔
وہ اتوار کی شام تھی اور اس وقت تک آگ تیزی سے پھیلتے ہوئے دریائے ٹیمز تک پہنچ گئی تھی۔ اس علاقے میں مکانوں کے اندر عمارتی لکڑی، برانڈی اور کوئلے کے بڑے بڑے ذخائر موجود تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں جو اس کی لپیٹ میں آئے ان میں آگ بھڑک اٹھی اور کیا وقت تھا کہ اس موقع پر خشک اور تیز ہوا مشرق سے مغرب کی طرف چلنی شروع ہو گئی۔ اس نے مزید کام خراب کیا اور ہوا کی وجہ سے آگ پر قابو پانے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔ اب آگ تیزی سے مغربی علاقوں کی طرف بڑھنے لگی۔ اس وقت فائر بریگیڈ کا کوئی تصور اس طرح موجود نہیں تھا تاہم ایسی صورت حال میں آگ پر قابو پانے کے لیے پانی اور دوسرے انتظامات کرنے کے لیے اہلکار ضرور تھے۔ مگر یہ بھی اس روز شہریوں کے جلتے ہوئے مکانوں میں سے قیمتی اشیاء چوری کرنے میں مصروف ہوگئے۔ آگ لمحہ بہ لمحہ پھیلتی چلی گئی۔ یہ خوف ناک سلسلہ بدھ کے روز تھما تو ہر طرف تباہی اور بربادی تھی۔ اس وقت تک 13000 مکانات راکھ ہوچکے تھے۔ 80 گرجا گھر مکمل طور پر جل گئے تھے اور 300 ایکڑ سے زائد علاقہ جھلس کر سیاہ ہو گیا تھا۔ لندن برج پر واقع دکانوں نے بھی آگ پکڑ لی تھی۔ شعلے دریائے ٹیمز کے شمالی کنارے تک جا پہنچے تھے اور وہاں بھی جگہ جگہ آگ کی تباہ کاریوں کے آثار نظر آ رہے تھے۔ تاہم اس خوف ناک آتش زدگی میں ہلاکتوں کی تعداد صرف آٹھ تھی۔
بدھ کی رات تک شدت کم ہو جانے کے بعد آگ پر تقریباً قابو پا لیا گیا۔ لندن کے سہمے ہوئے لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور بعد میں انتظامیہ نے اس علاقہ کی تعمیر زیادہ منظم اور بہتر انداز سے کی۔ اس سے ایک سال قبل یعنی 1665ء میں لندن کے لوگ طاعون کی وبا دیکھ چکے تھے جس میں چند دنوں میں ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔