روئے زمین پر موجود قدیم اور تاریخی عمارتوں کے کھنڈر، کسی قدر پختہ یا خستہ آثار اور مختلف مقامات جو کسی قدیم تہذیب اور ثقافت کی خبر دیتے ہوں بلاشبہ بنی نوع انسان کے لیے کسی خزانے سے کم نہیں۔ جدید دنیا اسے عالمی ورثہ تسلیم کرتی ہے۔ تاریخی حیثیت کی حامل ایسی کوئی جگہ اور مقام کسی ایک ملک، مذہب یا معاشرے کا نہیں ہوتا بلکہ اسے دنیا کا خزانہ سمجھا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر قدیم ورثہ کی حفاظت، دیکھ بھال اور اس سے متعلق دریافت و تحقیق کے لیے باقاعدہ اور منظم کوششیں 20 ویں صدی کے وسط سے شروع ہوئیں۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کنونشن کے تحت بین الاقوامی سطح پر دنیا کے ممالک نے اتفاقِ رائے کیا اور 1972 میں ایک بین الاقوامی معاہدہ کیا گیا جس کے تحت عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست بنائی گئی اور پھر مختلف ممالک میں تہذیبی و ثقافتی ورثے کی حفاظت کے لیے مشترکہ کوششیں شروع کی گئیں۔
یونیسکو نے پاکستان میں بھی متعدد مقامات کو ان کی ثقافتی، تاریخی یا قدرتی اہمیت کے پیشِ نظر عالمی ورثہ تسلیم کیا ہے اور ان کی حفاظت و دیکھ بھال پر اس کے تحت خاص توجہ دی جاتی ہے۔ یونیسکو ان مقامات کے حوالے سے ضرورت کے مطابق مختلف منصوبے شروع کرتا ہے جس میں تعمیراتی کاموں سے لے کر لوگوں کو کسی مقام کی تاریخی اہمیت کے بارے میں آگاہی دینا بھی شامل ہے۔ یونیسکو کی وجہ سے دنیا بھر میں سیاح مختلف ممالک کے تاریخی مقامات کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور ان کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ ادارہ بین الاقوامی ثقافتی تبادلے کو فروغ دینے کے ساتھ کسی عالمی ورثے کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی تعاون کو بھی بڑھاتا ہے۔ 11 جنوری کو دنیا عالمی ورثے کا دن بھی مناتی ہے اور اس موقع پر عالمی ثقافتی ورثہ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ان کی حفاظت کو یقینی بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے عالمی ثقافتی ورثہ کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی جو دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے اجلاس میں نئے ثقافتی مقامات کی فہرست جاری کرتا ہے۔ حال ہی میں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے تحت جو مقامات فہرست میں شامل کیے گئے ہیں، ان میں پہلا ثقافتی مقام سعودی عرب کا ہیماکا ثقافتی علاقہ ہے۔ یہاں چٹانوں پر ایسے نقش و نگار موجود ہیں جن کے بارے میں ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ 7 ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے۔ یہ نقش و نگار حیوانات اور نباتات کے ہیں جب کہ بعض جگہ معاشرتی زندگی کی عکاسی کی گئی ہے۔
اس عالمی ورثہ فہرست میں دوسرا علاقہ یورپ کے عظیم سپا ٹاؤن کا ہے جو 11 قصبات پر مشتمل ہے۔ یہ قصبات سات یورپی ممالک میں شامل ہیں اور تمام قصبے قدرتی معدنی پانی کے چشموں کے قریب ہیں۔ اس حوالے سے سائنسی محققین نے کئی دل چسپ اور حیرت انگیز انکشافات بھی کیے ہیں۔
تیسرا مقام فرانس میں کورڈوئن کا لائٹ ہاؤس ہے جو بحر اوقیانوس کی پتھریلی سطح مرتفع پر واقع ہے۔ سولھویں اور سترھویں صدی کے اختتام پر سفید چونے کے پتھر سے بنے اس شاہکار کو انجینئر لوئس ڈی فوکس نے ڈیزائن کیا تھا اور اٹھارہویں صدی کے آخر میں انجینئر جوزف ٹولیئر نے اسے دوبارہ تیار کیا۔
عالمی ورثہ کی فہرست کا چوتھا مقام جرمنی کی ڈرمسٹیٹ آرٹسٹس کالونی ہے۔ اسے 1897ء میں ہیسے کے گرینڈ ڈیوک، ارنیسٹ لوڈویک نے تعمیراتی صنعت میں اصلاحات کی ابھرتی ہوئی تحریکوں کے مرکز کے طور پر قائم کیا تھا۔
پانچواں مقام اٹلی میں چودھویں صدی میں تعمیر ہونے والی پڈوا کی فریسکو سائیکلز(نقش و نگار) ہیں۔ یہ 8 مذہبی اور سیکولر عمارت کے کمپلیکس پر مشتمل ہے اور تاریخی دیواروں والے شہر پڈوا کے اندر واقع ہے۔ اس میں صدیوں پہلے فن کاروں کی جانب سے متنوع عمارتوں میں بنائے گئے فریسکو سائیکلز موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ 1302ء سے 1397ء کے درمیان پینٹ کیے گئے تھے۔
اگر پاکستان کی بات کریں تو یہاں بھی اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے مختلف مقامات کو عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔ عالمی ورثے کی فہرست میں پاکستان کے چند مقامات تاریخی و سیاحتی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سب سے پہلا نمبر موہن جو دڑو کا ہے جو پاکستان کے صوبۂ سندھ میں موجود ہے۔ یہ ساڑھے 6 ہزار سال قدیم تہذیب کے آثار ہیں جن کو 1921ء میں دریافت کیا گیا تھا۔ دوسرے نمبر پر صوبۂ پنجاب کا شہر ٹیکسلا ہے جو گندھارا تہذیب کے بھید کھولتا ہے۔ یہ بدھ مت اور ہندو مت کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ تخت بائی کے کھنڈرات جو پشاور سے تقریباً 80 کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں، وہ بھی عالمی ورثہ ہیں اور بدھ تہذیب کی یاد دلاتے ہیں۔ مغل دور کی عمارتیں اور باغات بھی اپنے طرزِ تعمیر کی وجہ سے منفرد اور تاریخی یادگار سمجھی جاتی ہیں اور شاہی قلعہ اور شالامار باغ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع وہ مقامات ہیں جنھیں اس فہرست میں اہمیت دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مکلی کا قبرستان بھی قدیم اور انسان کے فن و ہنرمندی کا ایک نقش ہے۔ ٹھٹھہ کے قریب واقع یہ قبرستان دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس میں چودھویں صدی سے اٹھارہویں صدی تک کے مقبرے اور قبریں موجود ہیں۔ اسے یونیسکو نے 1981ء میں عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ ساتواں مقام پوٹھو ہار کے پتھریلے سطح مرتفع پر بنایا گیا قلعہ روہتاس ہے جو شیر شاہ سوری کے دور کی یادگار ہے۔ اس کی تعمیر میں ترک اور ہندوستانی فنِ تعمیر کا امتزاج نظر آتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی پہاڑی پر عکسری نقطۂ نظر سے تعمیر کردہ قلعہ ہے۔