کئی ایوارڈز اپنے نام کرنے والے منور رانا ہندوستان کے ایسے شاعر تھے جو بیرونِ ملک بھی اردو شاعری پڑھنے اور سمجھنے والوں میں مقبول تھے وہ ایک کام یاب شاعر تھے جنھیں خاص طور پر مشاعروں میں حاضرین دیر تک سننا پسند کرتے تھے۔ منور رانا کی مقبول ترین نظم ’ماں‘ اور ’مہاجر نامہ‘ ہیں۔
اردو کے معروف شاعر منور رانا کو 2014 میں ان کی نظم ’شہ دابا‘ پر ’ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ‘ دیا گیا تھا، لیکن بھارت میں عدم برداشت اور بڑھتی ہوئی ناانصافی پر احتجاجاً منور رانا نے یہ ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ ان کی اردو ادب کے لیے خدمات کے اعتراف میں 2012 میں ’ماٹی ایوارڈ‘ جب کہ وہ امیر خسرو ایوارڈ، میر تقی میر ایوارڈ، غالب ایوارڈ، ڈاکٹر ذاکر حسین ایوارڈ سمیت دیگر کئی ادبی ایوارڈ کے حق دار قرار پائے۔
منور رانا کو ہندوستان میں اردو زبان اور شعرو شاعری کے حوالے سے ان کے بعض بیانات کی وجہ سے تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاعرات کی اکثریت دوسروں سے کلام لکھواتی ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے تھے۔ منور رانا اس بات سے سخت نالاں تھے کہ موجودہ دور میں مشاعروں کا انعقاد تجارتی سوچ کے ساتھ کیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پست اور غیرمعیاری شاعری عوام تک پہنچ رہی ہے۔ بھارت میں اردو زبان اور شاعری کے حوالے سے منور رانا کو ہر تقریب میں مدعو کیا جاتا تھا اور لوگ ان کا کلام بڑے ذوق و شوق سے سنتے تھے۔ منور رانا ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ منور رانا کا پہلا شعری مجموعہ ‘آغاز’ 1971ء میں شائع ہوا۔ بعد کے برسوں میں سرحد، مہاجر نامہ، ماں، دیگر کئی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ اُن کی نثر پر مشتمل کتاب ‘بغیر نقشے کا مکان’ بہت مقبول ہوئی۔ جنگلی پھول، سخن سرائے، چہرے یاد رہتے ہیں اور سفید جنگلی کبوتر بھی ان کی تصنیفات میں شامل ہیں۔
شاعر منور رانا کا اصل نام سید منور علی تھا۔ وہ 26 نومبر 1952ء کو اتر پردیش کے رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید انور علی اور والدہ کا نام عائشہ خاتون تھا۔ منور رانا نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی تو ان کو لکھنؤ بھیج دیا گیا جہاں سینٹ جانس ہائی اسکول میں مزید تعلیم پائی۔ والد کا تبادلہ ہوا تو 1968ء میں منور رانا کو بھی کلکتہ جانا پڑا اور وہاں سے ہائر سیکنڈری کی سند لی اور پھر گریجویشن کے لیے کلکتہ کا رخ کیا۔ منور رانا کے ادبی ذوق و شوق کا سبب ان کے ادب نواز دادا مرحوم سید صادق علی رہے اور بعد میں اسی شوق نے انھیں شاعر بنا دیا۔
زمانۂ طالب علمی سے ہی منور رانا کو فلم اور شاعری کا شوق رہا۔ انھیں فلمی اداکاروں کی آوازوں کی نقالی میں بھی مہارت حاصل ہوگئی تھی۔ خاص طور پر فلم اسٹار شتروگھن سنہا کی آواز کی نقالی پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا تھا۔ منور رانا نے چند افسانے اور مختصر کہانیاں بھی لکھیں جو مقامی اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پرتھوی راج اور آغا حشر کاشمیری کے کئی ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔
اردو شاعری میں غزل کو وسیلۂ اظہار بنانے والے منور رانا نے ابتداً منور علی آتش کے قلمی نام سے شاعری شروع کی اور ان کی پہلی تخلیق 1972ء میں کلکتہ کے ایک معیاری رسالہ ماہنامہ ’’شہود‘‘ میں شائع ہوئی۔ بعد میں تخلص شاداں رکھ لیا اور 1977ء میں ایک مرتبہ منورؔ رانا بن گئے اور بے مثال شہرت پائی۔
منور رانا پچھلے سال 14 جنوری کو انتقال کرگئے تھے، انھیں لکھنؤ کے مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ 71 سالہ منور رانا 2017ء سے گلے کے کینسر، دل اور گردے کے عوارض میں مبتلا تھے اور طبیعت خراب ہونے پر انھیں اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں انھوں نے زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ ان کا ایک شعر ہے:
جسم پر مٹی ملیں گے پاک ہو جائیں گے ہم
اے زمیں اک دن تری خوراک ہو جائیں گے ہم