اے حمید اپنی یادوں میں لکھتے ہیں، ”امرتسر میرا وطن ہے، میں وہاں پیدا ہوا تھا۔ لیکن میں جب بھی بھاگ کر کسی دوسرے ملک کے، شہروں میں جہاں جہاں بھی آوارہ گردی کرتا رہا لاہور کی یاد میرے دل کے ساتھ لگی رہی، امرتسر کا صرف کمپنی باغ اور وہ لڑکی یاد آتی جس سے مجھے بچپن ہی سے پیار ہو گیا تھا۔
یہ اردو کے مشہور ناول نگار اور ڈرامہ نویس اے حمید کا تذکرہ ہے اور اسے ہم تک سرمد صہبائی نے پہنچایا ہے جو ایک ادیب، ڈرامہ، فلم اور تھیٹر کے ہدایت کار ہیں۔ اے حمید اور کئی دوسرے مشاہیر سے سرمد صہبائی کی دوستی اور رفاقت رہی اور اس تحریر میں انھوں نے اے حمید کی یاد تازہ کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
ستمبر کی ایک سہ پہر میرے دفتر کا دروازہ کھلتا ہے….
حمید صاحب اندر داخل ہوتے ہیں اور کھڑے کھڑے کہتے ہیں۔ ’اٹھ یار سرمد اج میں تینوں اک چیز دکھانی اے، چل اٹھ!‘ (اٹھو یار سرمد، میں آج تمہیں ایک چیز دکھانی ہے)۔ میں ان کے ساتھ چل پڑتا ہوں، ایمپریس روڈ سے کچھ دور سڑک کے دائیں طرف ایک کچی گلی آتی ہے، ہم اس گلی میں داخل ہو رہے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر حمید صاحب ایک جگہ کھڑے ہوگئے ہیں، وہ بڑی محویت سے ایک بوسیدہ پرانے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں حمید صاحب کے قدم خود بخود اس کے سامنے کیوں رک گئے ہیں۔
’حمید صاحب؟‘ میں ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوں!
’یار سرمد اوہ ساہمنے تینوں باری نظر ارہی اے،‘ (یار سرمد وہ سامنے تمہیں کھڑکی نظر آ رہی ہے؟) وہ مجھے بغیر دیکھے کہتے ہیں جیسے اپنے آپ سے بات کر رہے ہوں۔ میں ایک چھوٹی سی پرانی کھڑکی دیکھتا ہوں جس پر بہت خوبصورت رنگین شیشے جڑے ہوئے ہیں۔ ’یار ایہہ باریاں پتہ نییں ہن کتھے چلی گیاں نیں۔ ‘ (یار یہ کھڑکیاں نہ جانے اب کہاں چلی گئی ہیں) وہ یک دم بہت اداس سے ہو گئے ہیں۔ پتہ نہیں اس کھڑکی کے پار کون رہتا ہے۔ مجھے منیر نیازی کی نظم یاد آتی ہے، لگتا ہے حمید صاحب نے یہ کھڑکی منیر نیازی کو بھی دکھائی ہوگی اور منیر صاحب نے شاید اسی کھڑکی کو دیکھ کر اے حمید سے کہا ہو گا۔
اک اوجھل بے کلی رہنے دو
اک رنگیں ان بنی دنیا پر
اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو
یہ اوجھل بے کلی اور رنگین ان بنی دنیا کا نظارہ ہے۔ حمید صاحب اس کھڑکی کو دیکھتے چلے جا رہے ہیں جیسے جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہے ہوں، شاید اس کھڑکی کے پیچھے وہی لڑکی کھڑی ہے جو ان کو انارکلی کے جھروکے سے جھانکتی تھی۔ شاید وہ اپنی اوّلین محبت کو تلاش کر رہے ہوں۔ اوّلین محبت کی سرشاری، جیسے دنیا ابھی ابھی پیدا ہوئی ہو، جیسے روز آفرینش حوا اور آدم نے پہلی بار ایک دوسرے کی طرف دیکھا ہو۔