لاس اینجلس میں امریکی تاریخ کی تباہ کن آگ نو روز بعد بھی بے قابو ہے، ریسکیو ٹیموں کو تیز ہواؤں کے سبب آگ بجھانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں لگی آگ سے تباہ ہونے والی عمارتوں کا ملبہ ہٹانے پر پابندی عائد کردی گئی۔
حکام کا کہنا ہے کہ عمارتوں کے ملبے، راکھ اور گرد میں بھاری دھاتیں اور دیگر خطرناک مواد شامل ہوسکتا ہے۔ یہ خطرناک اجزا سانس کے ذریعے، جلد پر لگنے سے یا پینے کے پانی میں شامل ہوکر جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔
کچرے کو نامناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے سے ان خطرناک مادوں کے پھیلاؤ کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے جس سے امدادی کارکنوں، رہائشیوں اور ماحول کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اب تک 25 افراد ہلاک اور 12 ہزار سے زائد مکانات تباہ ہوچکے ہیں، 40 ہزار سے زائد ایکڑ رقبہ جل چکا ہے۔ مزید 88 ہزار افراد کو متاثرہ علاقہ چھوڑنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔
دوسری جانب امریکا میں لگنے والی انشورنس کمپنیوں پر بہت بھاری پڑی ہے اندازے کے مطابق انہیں بیمہ کنندگان کو 30 ارب ڈالر تک ادائیگیاں کرنا پڑسکتی ہیں۔
اس تاریخی آگ میں اب تک 12 ہزار سے زائد گھر جل کر خاک کا ڈھیر بن چکے ہیں اور ان میں اکثر انتہائی قیمتی گھر تھے، جن کے مالکان نے انشورنس کرا رکھی تھی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق آگ پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور یہ شامل مشرق میں برینٹ ووڈ تک پھیل گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں نے ابتدائی طور پر تخمینہ لگایا تھا کہ بیمہ کمپنیوں کو متاثرین کو کلیمز کی ادائیگی میں 20 ارب ڈالر تک ادائیگیاں کرنا پڑ سکتی ہیں تاہم اس کا پھیلاؤ اور نقصان بڑھنے کے باعث اب یہ تخمینہ 30 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔
اس حوالے سے جاپان کی ٹوکیو میرین ہولڈنگز انکارپوریشن نے کہا ہے کہ متاثرین کو جلد از جلد انشورنس کلیم ادا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
لاس اینجلس میں آگ کیوں لگی؟ تحقیقات شروع
واضح رہے کہ لاس اینجلس کے جنگلات میں لگی خوفناک آگ میں اب تک 25 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں دو اداکار بھی شامل ہیں۔