ٹیلی ویژن ڈرامہ ’’سونا چاندی‘‘ دیکھتے ہوئے بڑے ہونے والوں کی ایک نسل ہی نہیں ان کے بعد آنے والے بھی منّو بھائی کے مداح ہوگئے اور آج بھی اس ڈرامے کو ہر طبقہ و عمر کا فرد دیکھنا پسند کرے گا۔ اس ڈرامے کے خالق منّو بھائی بھی اپنے مقبولِ عام کرداروں یعنی سونا اور چاندی کی طرح ہمارے دلوں میں آج بھی بستے ہیں۔
معروف ادیب، کالم نگار اور کئی مقبول کھیلوں کے مصنّف منّو بھائی 19 جنوری 2018ء کو انتقال کرگئے تھے۔ انھوں نے پی ٹی وی کے سنہری دور میں ارد گرد پھیلی ہوئی کہانیوں کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا اور ان کے کردار بھی گلی محلّے میں چلتے پھرتے لوگ اور ان کے معمولات تھے۔ سونا چاندی بھی ایک سادہ لوح دیہاتی جوڑے کی کہانی ہے جو شہر آ کر مختلف گھروں میں نوکری کرتا ہے اور ان کی توسط سے شہری زندگی اور معاشرے کے بہت سے تضاد اور نشیب و فراز سامنے آتے ہیں۔
منّو بھائی کو ایک گوہرِ نایاب کہنا چاہیے کہ جن کا قلم بامقصد، تعمیری اور مفید تحریروں کے لیے متحرک رہا۔ انھیں ڈرامہ نگار اور کالم نویس کے طور پر شہرت ملی۔ انھوں نے اپنے کالموں میں سماجی برائیوں اور معاشرتی مسائل کی نشان دہی کی اور ساتھ ہی اپنے ڈراموں کے ذریعے ہماری گرفت کرتے ہوئے اصلاح کرنے کی کوشش کی۔ منّو بھائی نے پنجابی کھیل ’’کی جاناں میں کون‘‘ بھی تحریر کیا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔
منّو بھائی نے صحافت بھی کی اور کافی عرصہ رپورٹنگ کے شعبے سے منسلک رہے۔ انھوں نے سلسلہ وار اور طویل دورانیے کے کھیل بھی لکھے۔ ان کا تحریر کردہ سلسلے وار کھیل ’’آشیانہ‘‘ خاندانی اقدار سے جڑے مسائل پر مبنی تھا جب کہ مشہور ڈرامہ ’’دشت‘‘ بلوچستان کی ثقافت اور روایات کی عکاسی تھی۔ منّو بھائی نے مشہور ڈرامہ ’’جھوک سیال‘‘ کی ڈرامائی تشکیل کی، جسے دیہاتی زندگی اور کردار نگاری میں شان دار کہانی قرار دیا جاتا ہے۔ ڈرامہ سیریل سونا چاندی کے علاوہ ان کے طویل دورانیے کے کھیل ’’خوب صورت‘‘ اور ’’گم شدہ‘‘ آج بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں۔
6 فروری 1933ء کو پنجاب کے شہر وزیر آباد میں آنکھ کھولنے والے منّو بھائی کا اصل نام منیر احمد قریشی تھا۔ والد عظیم قریشی پاکستان ریلوے میں ملازم تھے جب کہ پنجابی زبان کے مشہور شاعر شریف کنجاہی ان کے ماموں تھے۔ منو بھائی نے 1947ء میں میٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج کیمبل پور(اٹک) چلے گئے جہاں اساتذہ کی توجہ اور حوصلہ افزائی نے انھیں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع دیا اور وہ پنجابی زبان میں شاعری کرنے لگے۔ بعدازاں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اور رپورٹنگ کے ساتھ کالم نویسی شروع کردی۔ وہ ’’گریبان‘‘ کے نام سے مؤقر اخبارات میں لکھتے رہے۔ وہ اپنی فکاہیہ تحریروں میں معاشرے کی برائیوں اور انفرادی رویّوں کے ساتھ مختلف موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے تھے جنھیں قارئین میں بہت پسند کیا جاتا تھا۔ کالم نویسی کے ساتھ انھوں نے پنجابی میں شاعری بھی جاری رکھی۔ ان کی مشہور تصانیف میں ’’اجے قیامت نئیں آئی ( پنجابی شاعری کا مجموعہ)، جنگل اداس ہے ( منتخب کالموں کا مجموعہ)، فلسطین فلسطین، محبت کی ایک سو ایک نظمیں اور انسانی منظر نامہ (تراجم) شامل ہیں۔
2007ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔