جمعرات, جنوری 23, 2025
اشتہار

بیکاری اور نصیحت کرنے والے

اشتہار

حیرت انگیز

نصیحت کرنے والے جو اتفاق سے بے روزگاری کے آلام و مصائب سے قطعاً نا آشنا ہوتے ہیں ہمیشہ یہی کہا کرتے ہیں کہ آج کل کے نوجوانوں میں آرام طلبی ایسی آگئی ہے کہ ہاتھ پاؤں ہلانے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ بس وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ گھر پر پڑے ہوئے چارپائی کے بان توڑا کریں اور روپے کی بارش ہوا کرے۔

ان ناصح بزرگوں سے کون کہے کہ جنابِ والا یہ سب کچھ صرف اس لئے ہے کہ آپ کا سایہ ہم کمبختوں کے سر پر ہنوز قائم ہے، حالاں کہ آج کل عمر طبیعی پچاس پچپن سال ہے، یعنی پچپن سال کی پنشن پاتے ہی انسان کو مر جانا چاہیے۔ یعنی یہ زبردستی تو ملاحظہ فرمائیے کہ دہری دہری عمر طبیعی پانے والے بزرگ مرنا تو بھول جاتے ہیں۔ بس یہ یاد رہ جاتا ہے کہ اپنی نازل کی ہوئی مصیبتوں پر بیکار نوجوانوں کو دن رات لعنت ملامت کیا کریں، حالانکہ قصور سب ان ہی کا ہے۔ یہی نوجوان جب بچے تھے تو ان ہی قبرستان کا راستہ بھول جانے والے بزرگوں نے ان بیچاروں کو پڑھانا شروع کیا تھا اور تمام زندگی زبردستی پڑھاتے رہے، یہاں تک کہ پڑھانے والے تو قبر میں پاوں لٹکا کر بیٹھ گئے اور پڑھنے والے ایک آدھ درجن بچوں کے باپ بن گئے۔ اب ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنے بچوں اور باپ دادا سب کا پیٹ پالو تو بیچارے کہاں سے پالیں؟

آرام طلب بنا دینے والے آرام طلبی کا طعنہ دیتے ہوئے کس قدر اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ بیکار کر دینے والے بیکاری پر لعنت ملامت کرتے ہوئے کیسے بھلے لگتے ہیں، ان ناصحوں سے کوئی پوچھے کہ اگر آپ کو اپنی اولاد کے بیکار ہونے کی فکر تھی تو آپ نے اس کو درزی کیوں نہ بنایا، بڑھئی کیوں نہ بنایا، لوہار کیوں نہ ہونے دیا، جوتا بنانا کیوں نہ سکھایا اور تعلیم شروع کرانے سے قبل گلا گھونٹ کر کیوں نہ مار ڈالا۔ پہلے تو تمام زندگی بیکار ضائع کی، اسکول اور کالج کی لاٹ صاحبانہ زندگی بسر کرائی، سوٹ بوٹ کا عادی بنایا اور اس مغالطے میں مبتلا رکھا کہ آنے والا دور موجودہ دور سے زیادہ زرین اور خوشگوار ہے۔ تو اب یہ شکوہ سنجیاں کیا معنی رکھتی ہیں اور تمام دنیا کا تو خیر جو کچھ بھی حال ہو لیکن ہندوستان جنت نشان کا یہ حال ہے کہ یہاں بیکاری کے سب اس طرح عادی ہو گئے ہیں کہ گویا ہندوستانی انسان کا مقصدِ حیات یہی بیکاری ہے جس میں سب مبتلا ہیں۔

- Advertisement -

ہندوستان ایسے جاہل ملک کے پڑھے لکھے بھی دو کوڑی کے اور جاہل بھی دو کوڑی کے بلکہ جو بیچارے پیدائشی یعنی خاندانی جاہل ہیں ان کی حالت پڑھے لکھوں سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس لئے کہ وہ محنت مزدوری کر کے اپنا اور اپنے متعلقین کا پیٹ پال لیتے ہیں اور پڑھے لکھوں کا پیٹ ان کے متعلقین بھرتے ہیں۔ اس وقت بیکاری کا عالم یہ ہے کہ ہندوستان کے کسی شہر میں دیکھ لیجیے، بہت سے محلّے کے محلّے ایسے نکلیں گے جہاں آپ کی دعا سے سب خودمختار یعنی آزاد ہوں گے، کوئی کسی کا نوکر چاکر نہیں، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ پھر کھاتے کہاں سے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ بھی دنیا کے تمام کام چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں اور دیکھئے کہ خدا کھانے کو دیتا ہے یا نہیں؟

پہلے آپ جائداد پر ہاتھ صاف کریں گے، پھر بیوی کے زیور کی باری آئے گی، پھر کپڑوں اور برتنوں پر نوبت پہنچے گی۔ مختصر یہ کہ خدا باپ دادا کی کمائی ہوئی دولت اور جمع کی ہوئی گھرستی کو رکھے، بیوی کے لائے ہوئے زیور کو رکھے اور ان سب کو کوڑیوں کے مول خریدنے والے مہاجنوں کو رکھے، بہرحال آپ انشاء اللہ اچھے سے اچھا کھائیں گے اور جس قدر اچھی زندگی آپ کی گزرے کی وہ تو ان نوکر چاکر قسم کے برسرِ کار لوگوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھی۔

مطلب کہنے کا یہ ہے کہ جس بیکاری سے ایک دنیا چیخ اٹھتی ہے، اس سے ہندوستان کیوں گھبراتا ہے، ہندوستان تو بقول ہمارے خداوندانِ نعمت کے ایک جاہل، وحشی، غیر مہذب اور کالے آدمیوں کا ملک ہے۔ یہاں اگر بیکاری ہے تو کیا تعجب، جب یورپ ایسے متمدن، تعلیم یافتہ، مہذب اور گورے آدمیوں کے ملک میں یہ حال ہے کہ بے چارے صاحب لوگ ہر طرح ناکام ثابت ہو کر وہاں کے ہر شعبہ ملازمت سے علیحدہ کر دیے گئے ہیں اور ان کی جگہ میم صاحبات براج رہی ہیں۔

اس بیکاری کا جو علاج ہے وہ ہندوستانیوں سے عمر بھر نہیں ہو سکتا اور اگر ہو سکتا ہے تو کر دیکھیں۔ ہم جبھی جانیں کہ یورپ کے مردوں کی سی غیرت اور حمیت پیدا کر کے دکھائیں اور اپنے آپ کو عورتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ جب یہ معلوم ہے کہ موجودہ دور "دورُ النساء” ہے تو پھر بیکاری دور کرنے کی جدوجہد کرنا فطرت سے جنگ کرنا ہے یا نہیں؟

(معروف مزاح نگار اور صحافی شوکت تھانوی کے بیکاری اور بے روزگاری پر ایک شگفتہ مضمون سے اقتباسات)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں