پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینٹ میں پیش کر دیا گیا، اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ اسے اس ایوان سے بھی منظوری مل جائے گی۔
مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت ماضی میں مذکورہ بل کی شدید ناقد رہی ہے جسے تحریک انصاف اپنے دور حکومت میں نافذ کرنا چاہتی تھی لیکن اب اس کے برعکس پی ایم ایل این خود اس بل کی حمایت میں میدان عمل میں آگئی ہے۔
دوسری جانب صحافتی تنظمیوں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی (جے اے سی) نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے اور احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس بل میں کون سے قوانین شامل ہیں؟
قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025 میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم بل کو تحلیل کرکے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا اس کی منسوخی اور معیارات کا تعین کرے گی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق جو بھی یقینی بنائے گی۔
بل میں کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کیخلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایات جاری کرنے کی مجاز ہوگی۔
اس بل کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق سیکشن اے 26 کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کیخلاف سزا سے متعلق ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی بھی جان بوجھ کر فیک نیوز پھیلاتا ہے، جو عوام اور معاشرے میں گھبراہٹ کا خرابی کا باعث بنے اس شخص کو 3سال قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔
اس بل کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹر کروانا لازمی قرا دیا گیا ہے، جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عارضی یا مستقل طور پر بھی بند کیا جاسکے گا۔
اس کے علاوہ سوش،ل میڈیا پر ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ شخص 24 گھنٹے میں اتھارٹی کو درخواست دینے کا پابند ہوگا۔
اس ترمیمی ایکٹ پر عمل درؤمد کیلیے وفاقی حکومت سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل قائم کرے گی، جس کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا،
جبکہ ٹریبونل کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکے گا۔
اس اتھارٹی میں مجموعی طور پر 9 ممبران ہوں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔
غیر قانونی مواد کسے کہتے ہیں؟
یہ اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف اور شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہوگی۔
پاکستان کی مسلح افواج، پارلیمان یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈٖ نہیں کیا جاسکے گا۔
ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیاپر اپلوڈ نہیں کیے جاسکیں گے۔
ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے فیک نیوز کے تدارک کے حوالے سے اس عزم کا اظہار باعث مسرت ہے، لیکن یہاں ایک سوال بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ملک میں جعلی خبروں کو پھیلانے کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟َ
اس موقع پر ماریہ میمن نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مظاہرین فائرنگ کے حوالے سے وفاقی وزیر عطا تارڑ اور ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار کے متضاد بیانات سنائے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ سلو ہونے کی خبروں سے متعلق شزا فاطمہ اور شرمیلا فاروقی کے متضاد بیانات اور پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق عطا تارڈ اور رانا ثناء اللہ کے بیانات سنائے۔
اس کے علاوہ پنجاب کالج میں ایک طالبہ سے ذیادتی کے حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے متضاد بیانات بھی سنائے اور سوال کیا کہ کیا ان لوگوں میں سے جس نے بھی غلط بیان دیا کیا ان کو بھی 3 سال جیل کی ہوا کھانے پڑے گی؟