بدھ, فروری 5, 2025
اشتہار

شاکر علی: جدت کے باوصف روایت کو نبھانے والے پاکستانی مصوّر کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

شاکر علی وہ ممتاز پاکستانی مصوّر تھے جنھیں تجریدی آرٹ کا بانی کہا جاتا ہے۔ روایت اور جدت کے امتزاج کے ساتھ شاکر علی کے فن پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جدت کے باوصف روایت کو نبھانے میں پاکستانی مصوروں کے درمیان اپنی انفرادیت کو منوایا ہے۔ شاکر علی نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل بھی رہے اور فنِ‌ خطاطی میں بھی اپنے ذوق و تخلیق کا اظہار کیا۔ آج اس مصور کی برسی منائی جارہی ہے۔

لاہور میں شاکر علی کی رفاقت اپنے زمانے کے کئی مشاہیر اور اہلِ علم و فن سے رہی جنھوں نے اس مصور کے فن کو سراہا اور ان کی شخصیت کے کئی دل چسپ پہلوؤں کو بھی اپنی تحریروں میں اجاگر کیا جن میں سے چند پارے آپ یہاں‌ پڑھ سکیں‌ گے۔ شاکر علی کا انتقال 27 جنوری 1975ء کو ہوا تھا۔

آرٹ میں دل چسپی اور فنِ‌ مصوری کا شوق شاکر علی کو شروع ہی سے تھا۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 1937ء میں نئی دہلی کے ایک اسٹوڈیو میں کام کرنے لگے۔ مصوری کی باقاعدہ تعلیم انھوں نے 1938ء میں ممبئی کے جے جے اسکول آف آرٹس میں داخلہ لے کر حاصل کی۔ یہ سلسلہ 7 سال تک جاری رہا اور میورل ڈیکوریشن میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ لینے کے بعد مزید تعلیم کے لیے 1948ء میں لندن چلے گئے۔ لندن میں شاکر علی نے رسیلیڈ اسکول آف آرٹ یونیورسٹی کالج سے فائن آرٹس میں ڈپلومہ کیا۔

شاکر علی کا آبائی وطن رام پور تھا۔ وہ 6 مارچ 1914ء کو پیدا ہوئے۔ کم عمر تھے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا، اور شاکر علی جو کہ حساس طبیعت کے مالک تھے، نہایت رنجیدہ رہنے لگے، اسی صدمے نے شاید انھیں خاموش طبع بنا دیا تھا۔ لیکن بعد میں برش اور پینٹ کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار خوب کیا۔

1949ء میں شاکر علی نے فرانس کا رُخ کیا اور فرانس کے ممتاز مصور آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ ایک سال کام کیا۔ پھر 1951ء میں پاکستان آئے اور لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ شاکر علی کے فن پاروں کی پہلی نمائش 1956ء میں شعبہ فائن آرٹ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے تحت ہوئی۔ 1957ء میں آرٹس کونسل کراچی اور لاہور میں بھی ان کے فن پاروں کی نمائش منعقد کی گئی۔ پاکستان کے علاوہ ان کے فن پارے امریکا، برازیل، ایران، اٹلی اور انگلستان میں بھی آرٹ گیلریز میں نمائش کے لیے رکھے گئے۔

شاکر علی کے تجریدی آرٹ کی خاص بات ان کا منفرد زاویۂ فکر ہے۔ وہ التامیرا کے غار دیکھ چکے تھے اور قدیم دور کی شاہکار تصاویر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ انھوں نے فطرت کی رنگینیوں، چاند ستاروں، چڑیوں اور پھولوں وغیرہ میں ایسے خوب صورت رنگ بھرے کہ انہیں دیکھ کر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔

معروف محقق، نقاد اور مترجم مظفر علی سید ان کے دوستوں میں سے تھے اور ان کا خاکہ بھی لکھا ہے، جس میں وہ رقم طراز ہیں، شاکر کی چند ایک تصویریں دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ جعلی تجرید پسند نہیں ہے، نہ اینٹی کلاسیکل۔ اس کے یہاں ایک کلاسیکی طمانیت ایک جد ید شکستگی سے سر بہ گریبان نظر آتی ہے۔ یوں اس دور کی تصویروں میں تناؤ کی کیفیت بہت تھی جیسے دو برابر کی قوتیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں۔ عسکری صاحب نے ٦۰ء تک کی تصویریں دیکھ کر تضادات کے تصادم کی طرف توجہ دلائی تھی۔ تقریباً اسی برس صفدر میر نے لکھا تھا کہ شاکر کے نقوش تجریدی صورت میں بھی با معنی ڈرامائی کیفیتوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ ’’میں نے ایسا کوئی فن کار نہیں دیکھا جس سے اس کے معاصرین نے اتنی ٹوٹ کر محبت کی ہو جیسی شاکر علی کو لاہور کے مصوروں اور قلم کاروں سے ملی۔‘‘

تاہم یہ محبت فوراً کے فوراً ہی نہیں مل گئی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس زمانے میں على امام جب بھی لاہور آتے تو اپنے دوست معین نجمی سے مل کر شاکر کے ساتھ شدید بحث کرتے اور تجرید، مکعبیت اور سر رئیلزم کو بیک وقت رد کرنے کی کوشش۔ کراچی میں صادقین کی بھی ان دنوں یہی کیفیت تھی۔ یہ لوگ کسی نہ کسی طرح تاثریت کی روشنی تو دریافت کر چکے تھے لیکن اس سے زیادہ جاننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے علی امام سے پوچھا کہ شاکر سے آپ کیسے ملے؟ انہوں نے کہا کہ بڑے بھیا یعنی رضا نے پیرس سے لکھا تھا کہ شاکر لاہور میں ہے، اس سے ملتے رہا کرو۔ پھر ایک دن شاکر علی نے زچ ہو کر علی امام سے کہا کہ تم تجرید وغیرہ کو جانے دو، یہ بتاؤ کہ تمہیں تاثریت کے بعد سیزان بھی نظر آیا کہ نہیں؟ خود علی امام نے شاکر کی موت کے بعد لکھا ہے کہ اس ایک بات نے اس کے پورے رویے کو بدل کر رکھ دیا۔ تقریباً ایسی ہی کیفیت آہستہ آہستہ صادقین کے یہاں بھی نظر آئی۔ اگرچہ بعد میں صادقین شاکر علی سے خاصا مختلف ہو جاتے ہیں۔

مظفر علی سیّد مزید لکھتے ہیں، جیسا کہ انتظار حسین نے لکھا ہے شاکر علی عسکری صاحب کی طرح بہت کم گفتگو کرتے تھے اور فن کے بارے میں دانشورانہ بحث میں تو بالکل کوئی حصہ نہیں لیتے تھے۔ یقیناً یہ بات بڑی حد تک درست ہے لیکن جس طرح عسکری صاحب مجلسی کم سخنی کے باوجود پڑھاتے بھی تھے، اسی طرح شاکر علی تھوڑے سے لفظوں میں بہت کچھ سمجھا جاتے تھے۔ میرے ساتھ تو لگتا ہے انہوں نے خاصی شفقت برتی اور فرانسیسی سیکھنے میں میری رغبت دیکھ کر جد ید مصوری کے فن پر اپنے استاد آندرے لوت کی فرنچ کتاب بھی مجھے عنایت کر دی۔ مصوری کے مطالعے اور تفہیم کے لیے انہوں نے مجھ پر جو محنت کی اور جو وقت صرف کیا وہ میرے خیال میں خود یورپ جا کر بھی شاید ہی کہیں سے ملتا تو ملتا۔ انہوں نے مصوری کے علاوہ ادب میں اعلیٰ تعلیم کی تحصیل پر بھی بہت زور دیا۔،،

خاکے کے یہ پارے ہمیں ممتاز پاکستانی مصور شاکر علی کے فن و شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ شاکر علی ایسے فن کار تھے جنھیں زندگی میں کینوس کے سوا کچھ بھی شاید عزیز نہ رہا ہوگا۔ انھوں نے اپنے گھر کو بھی تخلیقی ذوق اور شوقِ اختراع کا نمونہ بنا دیا تھا۔ یہ گارڈن ٹاؤن میں ان کا وہ مکان تھا جسے لوگ دور دور سے دیکھنے آتے تھے۔ دراصل شاکر علی نے اس گھر میں جلی ہوئی اینٹیں استعمال کی تھیں اور اسے آرٹ کا نمونہ بنا دیا تھا۔ ایسی اینٹیں عام لوگ تو پھینک دیا کرتے تھے۔ مگر افسوس کہ اس گھر کو تعمیر کرنے کے بعد شاکر علی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکے۔ حکومت نے بعد میں اس گھر کو ’شاکر علی میوزیم‘ کا درجہ دے دیا۔

شاکر علی فنِ خطّاطی میں جدّت اور خوش رنگ تجربات کرنے والے پاکستانی مصوّروں میں‌ سے بھی ایک ہیں۔ انھوں نے قرآنی آیات کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارا اور بہت متاثر کن کام کیا۔ شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو جس طرح کینوس پر اتارنے کا سلسلہ شروع کیا تھا، اس سے متاثر ہو کر پاکستان کے دیگر مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، نے بھی اپنی کاوش کی اور اس فن کو ترقی دی۔

حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کے فن اور خدمات کے اعتراف میں انھیں‌ 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔ 1971ء میں وہ ستارۂ امتیاز سے نوازے گئے اور بعد میں‌ شاکر علی یادگاری ٹکٹ کا اجرا کیا گیا۔ مصور شاکر علی لاہور میں گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں