روس کے قومی شاعر الیگزینڈر پوشکن کو ملک کے جدید ادب کا بانی بھی سمجھا جاتا ہے۔ پوشکن کی شاعری کو روس میں نصاب کا حصّہ ہی نہیں بنایا گیا بلکہ کئی شہروں میں کتب خانے اور مختلف علاقے الیگزینڈر پوشکن سے موسوم ہیں۔
مشہور شاعر اور ڈرامہ نویس پوشکن کو روس میں اصلاً اُس دور کا نمائندہ کہا جاسکتا ہے جب روسی ادب، خاص طور پر ناول نگاری اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہ دور تھا جب روسی ادب کے افق پر ایوان ترگنیف، لیو ٹالسٹائے اور نکولائی گوگول جیسے تارے اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے تھے۔
پوشکن 26 مئی 1799ء کو ماسکو میں اُس محلّہ میں پیدا ہوئے جو اشراف کا محلّہ کہلاتا تھا۔ پوشکن کے والد قدیم اور کسی زمانے میں دولت مند درباری امرا کی نسل سے تھے۔ پوشکن کی ماں ابرام ہانیبال کی نواسی تھیں جو ملک حبش کے شہزادے تھے اور کہا جاتا ہے کہ انھیں ترکوں نے زار پیٹر اوّل کو بطور تحفہ دیا تھا۔ پوشکن کو اپنے جدّ پر فخر تھا جو پیٹر کے دور میں ممتاز سپہ سالار تھے اور انھوں نے ان کے اعزاز میں تاریخی ناول پیٹرِ اعظم کا حبشی بھی لکھا۔ لیکن پوشکن کے والد کا خاندان ان کی پیدائش کے وقت بکھر چکا تھا اور والد مقروض ہوچکے تھے۔ ان کی ماں ایک تنک مزاج اور فضول خرچ عورت تھی۔ اس کنبے میں پوشکن پروان چڑھے، مگر بہت مختصر زندگی پائی۔
پوشکن بڑے ہورہے اور روسی سلطنت اور دنیا میں کئی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ انھوں نے کئی تاریخی اور شان دار واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور بہت کچھ سنا تھا۔ اس شاعر نے حب الوطنی کی وہ زبردست لہر بھی دیھی جو 1812ء کی جنگ سے پھوٹی تھی، پھر نپولین کی فوج کی تباہی اور فاتحین کی دھوم دھام سے وطن واپسی وہ تاریخی اور بے مثال واقعہ تھا جسے پوشکن کبھی فراموش نہیں کرسکے۔ انیسویں صدی کی تیسری دہائی کی ابتدا میں مغربی یورپ میں قومی آزادی کی تحریک ابھری۔ روس کے سیاسی حالات میں بھی گرمی پیدا ہو رہی تھی اور بادشاہ نے غریب عوام اور کسانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی اور اسی نے خفیہ سیاسی انجمنوں کے قیام کے ساتھ کسانوں کو غلامی سے نجات دلانے اور مطلق العنانی کا تختہ الٹنے کی راہ بھی ہموار کردی تھی۔ نوجوان پوشکن آزادی کا خواب دیکھنے اور اس کے لیے جان نچھاور کر دینے کا جذبہ رکھنے والے روسی نوجوانوں اور مختلف طبقات کے ترجمان شاعر بن گئے۔ ان کی سیاسی نظمیں اور وہ منظوم لطیفے خاص طور سے مقبول ہوئے جو ظلم و استبداد کے خلاف اور عوام کے کچلے ہوئے حقوق کی حمایت میں تھے۔ مشہور ہے کہ زار الیگزینڈر اوّل نے برہمی سے کہا تھا کہ پوشکن کی نفرت انگیز شاعری نے روس کو پاٹ دیا ہے۔ پوشکن کو سرکاری خدمات کے سلسلے میں تبادلے کی صورت میں سینٹ پیٹرز برگ سے روس کے جنوبی علاقے میں گویا جلا وطن کر دیا گیا۔ اور یہی وہ زمانہ تھا جب پوشکن کو غور و فکر کرنے اور شاعرانہ جوہر کے ساتھ خوب تخلیقی کام کرنے کا موقع ملا۔ 1820ء میں پوشکن نے اپنی پہلی بڑی شعری تصنیف روسلان اور لیودمیلا نامی نظم ختم کی۔ یہ عوامی کہانی تھی اور سادہ اسلوب کی وجہ سے ہر طبقۂ عوام میں مقبول اور ادب میں نمایاں ہوئی۔ بعد میں نظمیں قفقاز کا قیدی (1822ء)، بنجارے (1824ء) وغیرہ سامنے آئیں۔ زار کی حکومت نے اس غیور اور آزاد مزاج شاعر کو دور افتادہ صوبے کے ایک گاؤں بھیج دیا گیا جہاں پولیس ان کی نگرانی کرتی رہی۔ ادھر پوشکن نے روسی تھیٹر کے لیے عوامی ڈرامے تخلیق کرنے پر توجہ مرکوز کردی تھی۔ وہ روسی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے ظلم و اسبتداد کے مختلف ادوار سے واقف ہوئے۔ 1830ء میں پوشکن کی عظیم تصنیف، منظوم ناول ایوگینی اونیگن ختم ہوئی۔ کہتے ہیں کہ اس پر پوشکن نے آٹھ سال سے زیادہ عرصہ کام کیا۔ عظیم روسی نقاد اور جمہوریت پسند ویسارین بیلینسکی نے پوشکن کی اس تصنیف کو روسی زندگی کا انسائیکلوپیڈیا قرار دیا تھا۔
پوشکن نے کئی کہانیاں اور ڈرامے لکھے جن میں ان کی کتاب ایوان بیلکن میں شامل کہانیوں میں تخلیقات کی جمہوریت پسندی بہت صاف نظر آتی ہے۔ چوتھی دہائی میں پوشکن نے اپنا بڑا ناول دوبرووسکی لکھا جو پوشکن کی حادثاتی موت کے بعد 1841ء میں شائع ہوا۔ اس ناول کا پلاٹ زندگی کے حقیقی واقعات سے لیا گیا ہے۔
پوشکن کی زندگی کے آخری سال بڑے کٹھن گزرے۔ زار اور ان کے خاص درباری پوشکن کے دشمن بن گئے تھے۔ لیکن سختیوں اور مشکلات کو جھیلتے ہوئے پوشکن کا تخلیقی سفر بہرحال جاری تھا کہ ایک ڈوئل میں انھیں گہرا زخم لگا اور وہ زندہ نہ رہ سکے۔ وہ جدید روسی نثر نگاری کے بانی اور صاحبِ طرز ڈرامہ نویس تھے جو 29 جنوری 1837ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔