لیجنڈری موسیقار ماسٹر عبداللہ ان پاکستانی موسیقاروں میں سے ایک ہیں جو اس فن میں اپنے جداگانہ انداز کی وجہ سے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ انھیں پاکستان کی فلمی صنعت کا صاحبِ طرز موسیقار کہا جاتا ہے اور ان کے فلمی گیتوں کی دھنیں لازوال ثابت ہوئیں۔
ماسٹر عبداللہ 31 جنوری 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ انور کمال پاشا کی فلم سورج مکھی سے اپنا سفر شروع کرنے والے ماسٹر عبداللہ کا اس فلم میں شامل گیت او میرے گورے گورے راجہ بہت مقبول ہوا تھا۔ ماسٹر عبداللہ کی دھنوں میں خالص راگ راگنیوں کا وہ رچاؤ شامل تھا جس نے فلمی دنیا میں انھیں شہرت اور مقام دیا۔ اگرچہ اس زمانے میں پنجابی فلموں کی کہانی کی کام یابی میں گیتوں کا زیادہ عمل دخل نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر ماسٹر عبداللہ نے زیادہ پنجابی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی اور وہ ایسے باکمال فن کار تھے جنھیں اس میں بڑی کام یابی نصیب ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی ماسٹر عنایت حسین بھی ایک مستند اور قابلِ احترام موسیقار تھے۔ ماسٹر عبداللہ کو بریک تھرو فلم ملنگی (1965) کے سپر ہٹ گیت "ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں۔” سے ملا تھا۔
پاکستان کے اس نام ور موسیقار کا فلمی کیریئر تیس سال پر محیط رہا جس میں ماسٹر عبداللہ نے 51 فلموں کے لیے دھنیں ترتیب دیں۔ ان میں اردو کی چند فلمیں اور باقی پنجابی زبان میں فلمیں شامل تھیں۔
ماسٹر عبداللہ کی ترتیب دی ہوئی موسیقی میں فلم ٹیکسی ڈرائیور، بابل، نظام، شریف بدمعاش، بدل گیا انسان، اک سی چور، ہرفن مولا، دلیر خان، لاڈو، میدان، کمانڈو، وارث، شہنشاہ، پیار دی نشانی، رنگی، اکھ لڑی بدو بدی، کشمکش، رستم، ہیرا پتّھر، دل ماں دا، قسمت اور ضدّی کے نام سرِفہرست ہیں۔ آخرالذّکر فلم کا یہ گیت تیرے نال نال وے میں رہنا اور اسی طرح ایک اور فلم دنیا پیسے دی کا یہ گانا چل چلیے دنیا دی اوس نکرے آج بھی پنجابی سنیما کے زمانۂ عروج کی یاد تازہ کردیتے ہیں۔
فلم انڈسٹری کو کئی بے مثال دھنیں دینے والے موسیقار ماسٹر عبداللہ نے اپنے کمالِ فن سے اس وقت کے مشہور گلوکاروں کو بھی متأثر کیا اور وہ ان کی دھنوں پر اپنی آواز ریکارڈ کروانے کے خواہش مند رہے۔ جن بڑے گلوکاروں نے ماسٹر عبداللہ کی موسیقی میں اپنی آواز کا جادو جگایا ان میں شہنشاہِ غزل مہدی حسن، میڈم نور جہاں، مالا، تصور خانم اور دیگر بڑے نام شامل ہیں۔
ماسٹر عبداللہ نے اعلیٰ درجے کی موسیقی ترتیب دی اور فلم واہ بھئی واہ، لاڈو، ملنگی، کمانڈر، زندگی، رنگو جٹ کی شان دار کام یابی کی ایک وجہ ماسٹر عبداللہ کی موسیقی بھی تھی۔ یہ درست ہے کہ پنجابی فلمیں گیتوں کی بنیاد پر کم ہی کام یاب ہوئی ہیں، لیکن مذکورہ فلموں کے گیتوں کو بھی شائقین نے سراہا تھا۔
فلمی صنعت نے ماسٹر عبداللہ کو نگار ایوارڈ سمیت متعدد اعزازات سے نوازا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب ان کا سنہری دور ختم ہوا تو کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہ تھا۔ کہتے ہیں کہ لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں اور ماسٹر عبداللہ کے ساتھ ایسا ہی دیکھا گیا۔ وہ مالی مسائل اور دمے کے مرض کی وجہ سے ٹوٹ کر رہ گئے تھے اور اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔