پیر, فروری 3, 2025
اشتہار

جلیل قدوائی: شاعری، افسانہ نگاری اور نقد و نظر

اشتہار

حیرت انگیز

اردو ادب کی قابل و باصلاحیت ہستیوں کی زندگی اور ان کے فن و تخلیق پر نقد و نظر، ممتاز اہلِ قلم کے تذکرے رقم کرنے والے جلیل قدوائی کو دنیا سے رخصت ہوئے تیس سال گزر گئے ہیں‌۔ انھوں نے شاعری اور افسانہ نگاری کے ساتھ غیرافسانوی ادب تخلیق کیا۔ صحافت بھی جلیل قدوائی کا ایک حوالہ ہے۔

معروف ادیب اور نقاد جلیل قدوائی یکم فروری 1996ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق متحدہ ہندوستان کے شہر اناؤ(اودھ) سے تھا۔ جلیل قدوائی 16 مارچ 1904ء کو پیدا ہوئے۔ علی گڑھ اور الہ آباد یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچرر کے طور پر تقرر ہوگیا۔ حکومت ہند کے محکمۂ اطلاعات و نشریات میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ رہے اور کئی اہم عہدوں پر خدمات انجام دیں۔

جلیل قدوائی نے افسانوی ادب کے علاوہ کئی موضوعات پر علمی و ادبی مضامین، تبصرے اور تنقید لکھی۔ انھوں نے متعدد شعرا کا کلام مرتب کیا اور کئی کتابیں‌ ان کی تالیف کردہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں چند اکابر، چند معاصر، گلدستہ تنقید، تذکرے اور تبصرے (تنقید)، قطراتِ شبنم، مکتوباتِ عبد الحق (ترتیب)، شعری مجموعے خاکستر پروانہ، نقش و نگار، نوائے سینہ تاب اور، حیاتِ مستعار (خود نوشت)، سیرِ گل (افسانہ)، اصنام خیالی (مختصر افسانے) جب کہ مانا دانا اور ماموں‌ جان ڈراموں کے تراجم ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں