ہندوستان کی تاریخ میں جن مسلمان حکم رانوں کے دور کو ان کی دور اندیشی، عوام کی فلاح و بہبود کے اقدامات اور بہترین انتظامی امور کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ان میں علاء الدین خلجی بھی شامل ہیں محققین کے مطابق خلجی حکم راں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ امرا کی طاقت پر کنٹرول رہے اور ان کے دور میں انتظامی عہدے دار دولت اور طاقت کے ساتھ اختیارات میں مکمل آزاد نہ ہوں۔
مؤرخین نے علاء الدین خلجی کو ایک سمجھ دار اور موقع شناس بادشاہ بھی کہا ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ بے جا اختیار اور امرا کے دولت و طاقت میں بڑھ جانے سے ان کے اقتدار کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ گپتا سلطنت کے بعد ہندوستان کے سب سے بڑے خطّے پر حکومت کرنے والے علاء الدین خلجی نے دلّی سلطنت کو دکن اور گجرات تک وسعت بخشی۔
خلجی نے انتظامی ذہانت سے کام لیتے ہوئے خود کو ایک مضبوط اور نظم و ضبط کا قائل حکم راں ثابت کیا۔ اس حوالے سے ان کی اصلاحات اور چند بڑے اقدامات کو محققین نے بہت اہمیت دی ہے۔
علاء الدّین خلجی کی معاشی اور زرعی اصلاحات خاص طور پر اہمیت کی حامل ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان حکم راںوں میں خلجی سے پہلے اس نوعیت کے کام کم یا محدود پیمانے پر ہوئے تھے۔ علاء الدین خلجی نے زمین کی پیمائش اور زرعی ٹیکسز کے تعیّن کے لیے نہایت قابل اور دیانت دار افسروں کا انتخاب کیا، اور انھوں نے بڑی محنت سے دوآبہ، مالوہ اور پنجاب کے تمام زیرِکاشت رقبے کی ایک ایک گاؤں میں جاکر پیمائش کی اور مالیہ کا تعیّن کیا۔ پہلے گاؤں کے چوہدری یا نمبر دار ٹیکس وصول کرتے تھے، جو آدھا حکومت کے خزانے میں اور آدھا اُن کی جیبوں میں جاتا تھا۔ ٹیکس وصول کرنے والے سرکاری منصب دار اس دور میں رشوت اور نذرانوں کے عادی ہوچکے تھے۔ اس پر بادشاہ نے سخت ایکشن لیا اور شواہد و معلومات اکٹھی کرنے کے بعد سیکڑوں رشوت خور سرکاری ملازمین کو فارغ کیا گیا۔
مؤرخین کے مطابق، علاء الدّین پہلا بادشاہ تھا، جس کے ہاتھ ان پٹواریوں اور چوہدریوں تک پہنچے جو بددیانت تھے۔ بادشاہ نے چوہدریوں کی بجائے دیانت دار سرکاری ملازمین کے ذریعے زرعی ٹیکس وصول کرنا شروع کیا، جس سے عوام بھی مطمئن ہوئے اور رشوت سے ان کی جان چھوٹی۔ دوسری طرف حکومت کا خزانہ بھی بھرتا گیا۔ تاریخ فیروز شاہی کے مصنّف کا کہنا ہے کہ خلجی کے ان اقدامات کے بعد چند ہی سال میں چوہدریوں، نمبر داروں کی ساری اکڑ جاتی رہی۔
یہی نہیں بلکہ مصنّف کے مطابق گھوڑے کی سواری، قیمتی لباس پہننا، اسلحہ لگانا اور پان چباتے پھرنا، سب موقوف ہوگیا۔ بادشاہ نے قیمتوں پر کنٹرول کی پالیسی تشکیل دی، جس کے تحت کئی اشیاء کی سرکاری سطح پر قیمت مقرر کی گئی اور پورے ہندوستان میں اس سے زائد قیمت وصول کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس سے اشیا سستی ہوئیں اور عوام کو براہ راست فائدہ پہنچا۔ علاوہ ازیں قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک محکمہ بنایا گیا، جس کے تحت منڈیاں قائم ہوئیں، جن کی تین افراد نگرانی کرتے تھے۔ خلجی نے ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لیے ضرورت سے زائد غلّہ کھیتوں ہی میں فروخت کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کا غلّہ بحقِ سرکار ضبط کر لیا جاتا اور جرمانہ بھی ہوتا تھا۔ اسی دور میں دہلی میں کپڑے کی ایک بڑی مارکیٹ’’ سرائے عدل‘‘ کے نام سے قائم کی گئی، جو فجر سے ظہر تک کھلی رہتی تھی۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ تاجر اس کے علاوہ کسی اور مقام پر کپڑا فروخت نہیں کرسکتے تھے۔
علاء الدین خلجی کے دور میں سوداگروں کا ریکارڈ مرتّب کیا گیا اور اُنھیں شاہی خزانے سے قرضے بھی دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ بادشاہ اپنے جاسوسوں کے ذریعے ان سارے معاملات بالخصوص منڈیوں کی پوری خبر رکھتا تھا۔