ہالی وڈ سمیت دنیا بھر کی فلموں کے کئی ہدایت کار اپنے شان دار کام اور بلاشبہ تخلیقی ذہانت کا شاہ کار کہی جانے والی فلموں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ان میں کئی نام ایسے ہیں جو کئی برس پہلے ہم سے جدا ہو چکے ہیں، لیکن ان کی لازوال فلموں کے ساتھ ان کا نام بھی ہمیشہ لیا جاتا رہے گا۔ ان کی ہدایت کاری کا کمال ان کا تخلیقی نقطہ نظر اور فلم بندی میں جمالیاتی اظہار کی انفرادیت کے ساتھ کچھ تجربات رہے ہیں جو نئے ہدایت کاروں کے لیے مثال ہیں۔
دنیا کا ہر عظیم ہدایت کار پردے کے پیچھے اپنی زندگی گزار دیتا ہے۔ وہ عام سنیما بینوں کے لیے بس ایک نام ہوسکتا ہے اور فلم ڈائریکٹر کو جانے اور سراہے بغیر یہ عام سنیما بین ان کی فلمیں ایک سے زائد مرتبہ دیکھتے اور ہر بار پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک بہترین ہدایت کار آرٹ کی شکل میں جدت لاتا ہے اور تجربات کو اہمیت دیتا ہے۔ وہ نئی تکنیکوں کے ساتھ رسک لینا جانتا ہے اور پھر اس کی سوچ بچار اور اداکاروں سے لے کر لوکیشنز تک اس کا انتخاب ایک شاہ کار کو جنم دیتا ہے۔ یہاں ہم چند بہترین فلمی ہدایت کاروں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھوں نے خاموش اور ناطق فلموں کے ساتھ کامیڈی، ڈرامہ، ویسٹرن، میوزیکل فلمیں بنائیں اور خود کو باکمال ثابت کیا۔
اکیرا کوروساوا
اکیرا کروساوا نے 1936 میں فوٹو کیمیکل لیبارٹریز کے لیے کام کرنا شروع کیا تھا۔ٹوکیو کے اس فلمی ہدایت کار کی اس وقت عمر 25 سال تھی۔ انھوں نے 1943 میں اپنی پہلی فیچر فلم Sanshiro Sugata بطور ہدایت کار سنیما کے لیے تخلیق کی۔ بعد کے برسوں میں ڈرنکن اینجل (1948)، راشو مون (1950)، سیون سامورائی (1954)، ہائی اینڈ لو (1963) اور آخری فلم 1993 میں ریلیز ہوئی تھی۔
کروساوا ایک ماہر اسکرین رائٹر تھے جن کا کیریئر تقریباً 60 سال پر محیط رہا اور اس میں انھوں نے ٹی وی اور تھیٹر کے لیے بھی کام کیا۔ اکیرا کروساوا نے مغرب میں جاپانی فلموں کو مقبول بنانے میں کردار ادا کیا۔ ان کے کام کو انگمار برگ مین اور کئی بڑے فلم سازوں اور ہدایت کاروں نے سراہا۔
بلی وائلڈر
آسٹریا کے ہدایت کار بلی وائلڈر نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز جرمنی میں بطور اسکرپٹ رائٹر کیا۔ بدقسمتی سے جرمنی میں نازیوں کے ظلم و ستم اور اپنے خاندان کے کئی لوگوں کی ہلاکت کے بعد وائلڈر 1930 کی دہائی میں جرمنی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ وہ اگلے دس برس بعد یعنی 1940 کی دہائی تک ہالی وڈ کے عظیم ہدایت کاروں میں سے ایک مشہور ہوئے۔ وائلڈر نے ڈبل انڈیمنٹی (1944)، سن سیٹ بلیوارڈ (1950)، سبرینا (1954)، وٹنس فار دی پراسیکیوشن (1957)، سم لائک اٹ ہاٹ (1959) جیسی کلاسک کے ساتھ کامیڈی سے لے کر مختلف موضوعات پر فلموں کو مقبول بنایا۔
انھوں نے 1981 میں اپنی آخری فلم بطور ہدایت کار کی تھی۔ وائلڈر کو 21 آسکرز کے لیے نام زد کیا گیا تھا، جس میں سے چھے آسکرز وہ جیتنے میں کام یاب ہوئے اور دو ایوارڈز بہترین ہدایت کاری کے لیے حاصل کیے۔
فرینک کیپرا
کیپرا کی فلمیں اس آئیڈیلزم کو اپنی گرفت میں لاتی ہیں کہ امریکہ کیا ہو سکتا ہے۔ یہ فلمیں اٹ ہیپنڈ ون نائٹ (1934)، مسٹر ڈیڈز گوز ٹو ٹاؤن (1936)، یو کانٹ ٹیک اٹ ود یو (1938)، اٹز اے ونڈر فل لائف (1946) ہیں۔ فرینک کیپرا اس انفرادیت کے ساتھ بطور ڈائریکٹر کیمرے کے پیچھے محنت اور لگن کے ساتھ کام کرنے والوں میں سے ایک تھے۔ وہ 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں اپنے کام کی وجہ سے خوب پہچانے گئے۔ کیپیرا نے پانچ آسکر جیتے اور امریکن فلم انسٹی ٹیوٹ اور ڈائریکٹرز گلڈ آف امریکہ سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈز حاصل کیے۔ ان کی آخری تھیٹر فلم 1961 کی پاکٹ فل آف میرکلز تھی۔
ژاں لوک گوڈارڈ
فرانس میں فلمی صنعت میں نئی لہر کے ایک ستون کے طور پر ژاں لوک گوڈارڈ کو سب سے زیادہ بااثر ہدایت کار کہا جاتا ہے۔ وہ سوئس باشندےے تھے، لیکن فرانس میں ان کا وقت فلمی دنیا میں کام کرتے اور نام بناتے ہوئے گزرا۔ گوڈارڈ کی خاص بات یہ تھی کہ انھوں نے دوسرے ڈائریکٹروں کے مقابلے میں بیانیہ، تسلسل، آواز اور کیمرہ ورک کو بہت اہمیت دی اور اپنی فلموں کو انفرادیت بخشی۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اداکاروں کو موقع دیتے تھے کہ وہ اپنی پرفارمنس کو دریافت کرسکیں۔ وہ جان سکیں کہ کس کردار کے لیے وہ زیادہ موزوں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اکثر نامکمل اسکرپٹ کے ساتھ فلم بندی کرنے والے ہدایت کار بھی مشہور تھے۔ بریتھ لیس (1960)، اور ویک اینڈ (1967) کے علاوہ کئی فلمیں گوڈارڈ کے فن کا کمال ہیں۔ انھیں بڑے فلم سازوں نے بھی سراہا اور ان کے کام کو مثالی قرار دیا ہے۔
الفریڈ ہچکاک
الفریڈ ہچکاک نے اپنے کیریئر میں 50 سے زیادہ فلموں کی ہدایت کاری کی۔ انھوں نے سنسنی خیز، سسپنس اور ڈراؤنی کہانیوں کو سنیما بینوں میں مقبول بنایا۔ ہچکاک نے برطانیہ میں اپنے کیرئیر کا آغاز خاموش فلم سے کیا تھا اور ان کی 1929 کی فلم بلیک میل پہلی برطانوی "ٹاکی” تھی۔ 1930 کی دہائی کے آخر میں ہالی ووڈ میں منتقل ہونے کے بعد، ہچکاک نے ریبیکا (1940) بنائی، جس نے انھیں بہترین ہدایت کار کے لیے پانچ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد کروایا۔ ہچکاک نے کلاسیکی فلمیں بنائیں جن میں ڈائل ایم فار مرڈر (1954)، ریئر ونڈو (1954)، ٹو کیچ اے تھیف (1955)، ورٹیگو (1958)، سائیکو (1960) شامل ہیں۔
اسٹینلے کبرک
کہا جاتا ہے کہ اسٹینلے کبرک کے ساتھ بطور ڈائریکٹر کام کرنا مشکل تھا۔ ڈاکٹر اسٹرینج لو (1964)، اے کلاک ورک اورنج (1971)، فل میٹل جیکٹ (1987) جیسی فلموں کے ساتھ، کبرک نے 13 تھیٹر فلموں کی ہدایت کاری کی اور یہ سب ایک شاہ کار ہیں۔ کبرک کو ان کے کیرئیر میں 13 اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نام زد کیا گیا تھا لیکن اپنی ہدایت کاری کے لیے انھوں نے بہت کم ایوارڈ جیتے۔ تاہم ان کی ہدایت کاری کا انداز بہت منفرد رہا، خاص طور پر کیمرہ ورک اور فریمنگ نے بہت سے دوسرے ہدایت کاروں کو متاثر کیا۔ کبرک کی کئی فلموں کو بیسویں صدی میں اہم قرار دیا گیا۔