جمعہ, فروری 7, 2025
اشتہار

سائنس کی روشنی کی صدی

اشتہار

حیرت انگیز

انیسویں صدی ختم ہوئی تو امریکہ برطانیہ اور مغربی یورپ کے ملکوں کا قومی سرمایہ ترقی کر کے قومی اجارہ دار سرمایہ یعنی امپریلزم بن گیا تھا۔ اور یہ سرمایہ دار ممالک جنوبی امریکہ، افریقہ اور ایشیا کے ملکوں کو اپنے زیرِ تسلط اور زیرِ اثر لے آئے تھے اور انہیں اپنی منڈیاں بنا لیا تھا۔

بیسویں صدی میں یہ سرمایہ دار ممالک منڈیوں اور خام مال کے ذخائر کی تقسیم کے لیے آپس میں اُلجھ پڑے اور 1914 میں ان کے درمیان پہلی عالمی جنگ ہوگئی جو 1918 تک جاری رہی۔ یہ جنگ ابھی جاری تھی کہ 1917 میں روس میں انقلاب برپا ہو گیا۔ مزدوروں اور کسانوں نے زار شاہی کا خاتمہ کر کے روس میں سوشلزم کی تعمیر شروع کر دی۔ منڈیوں کی تقسیم پر ان کے درمیان دوسری عالمی جنگ 1939 میں شروع ہوئی اور 1945 تک جاری رہی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد 1948 میں امریکہ نے کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان کو ملا کر سات بڑے سرمایہ دار ملکوں کا بلاک بنایا اور سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ملکوں کو ملا کر سوشلسٹ بلاک بنایا اور ان دونوں بلاکوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ اِس سرد جنگ میں امریکہ اور سوویت یونین میں ہتھیار بنانے کی دوڑ شروع ہوئی۔ ان دونوں ملکوں نے ایٹم بموں کے ڈھیر لگا لیے اور بین البراعظمی میزائل بنا لیے۔ امن پسند دانشوروں، سائنس دانوں اور ترقی پسند سیاسی ورکروں نے یہ کہا کہ اگر اب جنگ ہوئی تو یہ ایٹمی جنگ ہو گی اور اِس میں صرف آدمی نہیں مریں گے انسان مر جائیں گے اور یہ حسین دنیا بھسم ہوجائے گی۔ اِس شعور کو پاکر یورپ کے 34 ملکوں بشمول امریکہ، کینیڈا اور سوویت یونین کے سربراہوں کا ایک اجتماع پیرس میں 20 نومبر 1990 کو ہوا اور انہوں نے اعلان پیرس کے نام سے ایک دستاویز پر دستخط کر کے اعلان کیا کہ ہم نے آج سے سرد جنگ ختم کر دی ہے اور اعلان کیا کہ وہ اِس صدی کے اختتام تک ایٹمی اسلحہ ختم کر دیں گے اور 2010 تک ہر قسم کے اسلحہ اور افواج ختم کر کے مکمل ترکِ اسلحہ کا معاہدہ کریں گے اور جن ملکوں میں کشیدگیاں موجود ہیں انہیں مذاکرات سے طے کرائیں گے اور ملکوں کے اندر جمہوریت قائم کریں گے۔

اس اعلان سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہوگئی جو امن، برابری، جمہوریت، بنیادی انسانی حقوق، سماجی انصاف اور سوشلزم کا دور ہے اور دنیا میں علاقائی امن تعاون اور اشتراک کی راہیں نکل آئیں۔

یورپ اور شمالی امریکہ کے ممالک میں تعاون و اشتراک قائم ہو گیا ہے۔ مغربی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں اس راہ پر چلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ 1948 سے 1990 تک سرد جنگ سے 42 سالوں میں دنیا میں دو اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی ہوئی اور ان دونوں شعبوں میں انقلاب برپا ہوگیا۔ سائنس نے کائنات کے تمام سر بستہ راز بے نقاب کر دیے ہیں۔ سائنس کی دریافتوں نے ثابت کردیا ہے کہ انسان نسلِ وحدت ہے اور سب انسان بلالحاظِ قومیت، نسل، رنگ، زبان، مذہب اور جنس برابر ہیں اور اِس دنیا کے وسائل پر برابر کا حق رکھتے ہیں۔ سائنس کی دریافتوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مادی دنیا(جمادات نباتات اور حیوانات) کی ترقی کا عمل ارتقائی ہے۔ انسانی سماج اور انسانی فکر کی ترقی کا عمل بھی ارتقائی ہے۔ اور ترقی کے عمل میں نہ تکرار ہے نہ اعادہ ہے اور نہ رجعت قہقری ہے بلکہ یہ نیچے سے اوپر کو اور خوب سے خوب تر کی طرف آگے بڑھتا ہے۔ ترقی کے اِس جدلیاتی عمل سے پہلے مقداری تبدیلی ہوتی ہے پھر ماہیتی تبدیلی ہوتی ہے اور ترقی ایک جست کی صورت میں آگے بڑھتی ہے اور یہ نفی کی نفی ہے۔

ٹیکنالوجی کی جدید ایجادات کمپیوٹر، الیکٹرانک اور روبوٹ نے انسان کے ہاتھ میں تسخیر کائنات کی بے پناہ قوت دے دی ہے اور وہ ان ایجادات کو کام میں لا کر مادّی دنیا کے وسائل سے سب انسانوں کے لیے متوازن غذا، خوب صورت پوشاک فراہم کرسکتا ہے۔ تعلیم اور علاج کی مفت سہولتیں فراہم کرسکتا ہے۔ سرمایہ داری نظام پیداوار ترقی کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ جدید آلات، پیداوار کی پیداواری صلاحیت دس گنا زیادہ ہے اور ان کے استعمال سے پیداوار دس گنا بڑھ گئی ہے۔ ان کے پیداواری عمل میں استعمال سے بے کاری بڑھ گئی ہے۔ ایک طرف دولت کے ڈھیر لگ گئے ہیں اور دوسری طرف غریبی بڑھ گئی ہے اور امارت اور غربت میں تفادت بڑھ گیا ہے۔ منافع خور سرمایہ دار مادّی وسائل کا بے تحاشا اور بے دریغ استعمال کر رہے ہیں، ان کے اس عمل سے مادّی دنیا کے وسائل گھٹ رہے ہیں۔پانی ہوا اور فضا میں آلودگی بڑھ رہی ہے۔ جنگلات ختم ہورہے ہیں اور مادّی دنیا کا حسن زرخیزی اور پیداواری صلاحیت گھٹ رہی ہے۔

بیسویں صدی 31 دسمبر 1999 کو ختم ہوگی اور اکیسویں صدی شروع ہوگی اور تیسرے ہزار سالہ عہد کا آغاز ہوگا۔ اٹھارویں صدی، انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں انسان نے سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی کی۔ پاکستان اِس ترقی میں بہت پیچھے ہے۔ پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے لازمی اقدامات زرعی اصلاحات، سائنسی علوم کی تعلیم، جمہوریت کا فروغ ہیں۔

زرعی اصلاحات کے لیے زرعی زمین کی حدِ ملکیت 25 ایکٹر فی خاندان مقرر کر کے اِس حدِ ملکیت سے اوپر کی ساری زرعی اراضی بلامعاوضہ حاصل کر کے مزارعوں اور کھیت مزدوروں میں مفت تقسیم ہے۔ اجناس، پھلوں اور سبزیوں کی کاشت ہے اور بھینسوں کی پرورش ہے۔ پہاڑوں، چولستان تھر اور بلوچستان میں جنگلات کی کاشت ہے۔ ناخواندگی اور جہالت دور کرنے کے لیے درس گاہوں کا قیام اور نصاب تعلیم میں سائنسی علوم فزکس اور اکنامکس کی تعلیم کو شامل کرنا ہے۔

ماس میڈیا (ریڈیو۔ ٹی وی اور اخبارات ) کے ذریعے سائنسی علوم کی تشہیر ہے۔ روایت پرستی ماضی پرستی اور قدامت پسندی کی جگہ بلند نظری، بلند فکری اور انسان دوستی کی تشہیر ہے۔

جمہوری نظام کے فروغ کے لیے مناسب نمائندگی کے طریقِ انتخاب کو اختیار کرنا ہے اور مرکز سے صوبوں اور صوبوں سے اضلاع اور دیہات تک اختیارات کی تقسیم ہے۔

پاکستان کا کلچر ٹرائیبل اور فیوڈل ہے۔ اس کی جگہ سائنس کے کلچر سے عوام کو روشناس کرنا ہے۔ صنعتی منصوبہ بندی کر کے ان صنعتوں کا قیام جن کا خام مال پاکستان میں موجود ہے، لازمی ہے۔ فیوڈل اور ٹرائیبل کلچر کی جگہ سائنس کے کلچر کو پھیلانے کی ذمہ داری پاکستان کے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کی ہے۔

ان کا ادب اور ثقافت روایت پرستی، ماضی پرستی اور قدامت پسندی کا ادب ہے۔ ان کی فلمیں بھی انہی خیالات رجحانات اور نظریات کا پر چار کرتی ہیں۔ ترقی پسند ادیبوں کو عوام کو اگلی صدی اور اگلے ہزار سالہ عہد کے لیے نظریاتی طور پر تیار کرنا ہے اور عوام میں اب روایت پرستی اور ماضی پرستی کا ادب پھیلانے سے دور رہ کر انسان دوست کلچر، بلند نظر کلچر اور بلند نظر افکار کو پھیلانا ہے۔

پاکستان کے عوام کو اکیسویں صدی جو انسان دوست سماج کی صدی ہے، سائنس کی روشنی کی صدی ہے، کا استقبال کرنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ اگر انہوں نے اپنے اِس فرض سے کوتاہی کی تو پاکستان کی اگلی نسل بچے اور خواتین انہیں بھی معاف نہیں کریں گے۔

(پاکستان میں بائیں بازو کے نام وَر راہ نما اور دانش ور سی آر اسلم کی ایک پُرفکر تحریر جو 1999 میں ان کے قلم سے نکلی تھی)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں