امریکی عدالت نے یو ایس ایڈ کے ملازمین سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پروگرام کو مکمل ختم کرنے سے روک دیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی جج نے صدر ٹرمپ کی جانب سے یو ایس ایڈ کے ہزاروں ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجنے کے فیصلے کو عارضی طور پر روک دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیرملکی امداد روکنے کے احکامات کے بعد یو ایس ایڈ خاتمے کے قریب پہنچ گئی تھی۔عدالت نے قرار دیا ہے کہ ٹرمپ نے بغیر کسی ثبوت کے اس پر بدعنوانی کے الزامات لگائے۔
واشنگٹن میں ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے جج کارل نکولس نے کہا ہے کہ وہ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (USAID) کے 2 ہزار 200 ملازمین کو جبری رخصت پر بھیجنے کے منصوبے کو عارضی طور پر روک دیں گے۔
یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کے خلاف ایک مقدمے کے دوران سامنے آیا ہے جس میں امریکی سرکاری ملازمین کی یونین اور غیر ملکی سروس ورکرز کی ایک ایسوسی ایشن نے یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے حکومتی اقدام کو چیلنج کیا تھا۔
مذکورہ عدالت کے جج کارل نکولس، جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گزشتہ دورِ صدارت میں نامزد کیا تھا، نے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ وہ اپنا تحریری فیصلہ بعد میں جاری کریں گے۔
مقدمہ دائر کرنیوالی یونین نے عدالت سے کی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ صدر ٹرمپ نے اس اقدام کے لیے کانگریس سے اجازت نہیں لی۔ یونین کا یہ بھی مؤقف ہے کہ یو ایس ایڈ کیخلاف صدر ٹرمپ کا اقدام غیر آئینی اور غیرقانونی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ روز یو ایس ایڈ کے ملازمین کو نوٹس بھیج کر اعلان کیا تھا کہ وہ دنیا بھر میں ایجنسی کے 10ہزار سے زائد ملازمین میں سے صرف 611 انتہائی ضروری” ملازمین کو برقرار رکھے گی۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں بعد ہی’’سب سے پہلے امریکا‘‘ پالیسی کے تحت ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس کے مطابق تمام امریکی غیر ملکی امداد کو معطل کر دیا گیا تھا۔