پنجاب کے شہر چنیوٹ میں 5 منزلہ لکڑی کی عمارت جس کو خوبصورتی کے باعث تاج محل بھی کہا جاتا ہے پراسرار کہانیاں جڑی ہیں۔
پنجاب کے تاریخی شہر چنیوٹ جائیں اور وہاں کو لکڑی سے بنا تاج محل نہ دیکھیں تو سمجھیں کچھ نہ دیکھا۔ مغلیہ طرز تعمیر کے نقوش سمیٹے اس تاریخی پانچ منزلہ عمارت کے ساتھ پراسرار کہانیاں جڑی ہوئی ہیں۔
اس خوبصورت عمارت کو کولکتہ کے کامیاب تاجر شیخ عمر حیات نے اپنے بیٹے گلزار حیات کے لیے 1921 سے 1930 کے درمیان 10 سال کے عرصہ میں تعمیر کرایا اور اس عمارت کا نام گلزار حیات رکھا مگر اپنی خوبصورتی کے باعث یہ تاج محل بھی کہلایا جاتا ہے۔
چودہ مرلے پر محیط یہ محل تہ خانوں سمیت پانچ منزلوں پر مشتمل تھا۔ اس وقت 4 لاکھ روپے کی مالیت سے تیار اس محل کی انفرادیت اور خاص بات اس میں لکڑی کا کام تھا۔ یہ سارا کام اس زمانے کے مشہور کاری گر استاد الٰہی بخش پرجھا اور رحیم بخش پرجھا نے انجام دیا تھا۔ لکڑی اور کندہ کاری کے کام کے حوالے سے ان کا چرچا برطانیہ تک ہوتا تھا جب کہ محل کی تعمیر میں سفید سنگ مرمر کا بھی استعمال کیا گیا۔
مرکزی گلی سے محل کے احاطے میں داخل ہوں گے تو آپ کی نظر سامنے کی انتہائی خوب صورت دیواروں پر پڑے گی۔ داخلی دروازے کے ساتھ نصب دو میں سے ایک تختی پر استاد الٰہی بخش پرجھا سمیت ساتھی مستریوں اور کاری گروں کے نام درج ہیں جب کہ دوسری تختی پر ان حضرات کے نام کندہ ہیں جنہوں نے مرمت کے ذریعے اسے تباہی سے بچایا۔ خم دار لکڑی سے بنے دروازوں، کھڑکیوں اور جھروکوں کی دل کشی منفرد ہے۔
دوسری طرف بالکونی، چھتیوں، ٹیرس اور سیڑھیوں پر لکڑی کے کام نے اسے وہ خوب صورتی بخشی ہے جو شاید ہی کسی اور فنِ تعمیر کو نصیب ہوئی ہو۔ تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ شیخ عمر حیات محل کی 1937 میں تعمیر مکمل ہونے سے دو سال قبل ہی انتقال کر گئے تھے، لیکن تعمیر مکمل ہونے کے بعد تو گویا یہ محل مقبرہ ہی بن گیا۔
عمارت کی تکمیل کے بعد ورثا نے یہاں سکونت اختیار کی اور عمر حیات کے انتقال کے تین سال بعد ان کی بیوہ فاطمہ بی بی نے اپنے بیٹے گلزار کی دھوم دھام سے شادی کی اور بہو کو بیاہ کر اس تاج محل نما عمارت میں لائیں۔ تاہم اگلی صبح بیٹے کی پراسرار طریقے سے موت ہوگئی۔ گلزار کو اس کی وصیت کے مطابق محل کے اندر ہی دفن کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد فاطمہ بی بی بھی چل بسیں اور اسی محل میں بیٹے کے پہلو میں آسودہ خاک ہوئیں۔
اس کے بعد ان کے ورثا نے محل کو منحوس تصور کرتے ہوئے ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ ان کے محل چھوڑنے کے بعد چند سال تک اس خاندان کے ملازم یہاں مکین رہے، بعد ازاں اس عمارت کو ایک یتیم خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔
اس سے جڑی پراسرار کہانیوں اور عمارت کی خوبصورتی کے باعث ملک اور بیرون ملک سے لوگوں کی بڑی تعداد یہ محل دیکھنے آتی ہے۔
کئی ایسے مقامی افراد بھی ہیں جن کا یقین راسخ ہے کہ محل کی خوبصورتی کی وجہ سے اس پر آسیب فدا ہیں اور رات کے وقت یہاں چڑیلیں گھومتی اور ناچتی گاتی ہیں۔ یہی چڑیلیں یہاں کسی کو رہنے اور بسنے نہیں دیتیں۔
اس وقت یہ عمارت میونسپل کارپوریشن کے زیر استعمال ہے اور یہاں ایک لائبریری قائم کی گئی ہے۔ تاہم دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اس کی دو بالائی منزلیں گر چکی ہیں۔ حکومت اس عمارت کی تزئین اور آرائش کر کے اس کی تاریخی حیثیت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔
ویڈیو رپورٹ: امیر عمر چمن
دریں اثنا اے آر وائی نیوز کی رپورٹ پر ایکشن لیتے ہوئے محکمہ آثار قدیمہ نے اس قدیمی ورثے کی حفاظت کے لیے عمارت کی تعمیر اور مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔ اس اقدام کو شہریوں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔