منگل, فروری 11, 2025
اشتہار

صادقین: عالمی شہرت یافتہ مصور اور خطاط

اشتہار

حیرت انگیز

مستنصر حسین تارڑ صاحب نے صادقین کی دریا دلی سے متعلق ایک واقعہ تحریر کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں فن پاروں کی نمائش کے دوران کس طرح ایک عرب شیخ نے انہیں ایک خطاطی کی منہ مانگی قیمت دینے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ شیخ ہر روز ان کی وہ تخلیق دیکھنے آتا اور للچائی نظریں گاڑے رکھتا۔ نمائش کے آخری روز صادقین نے اسے قریب سے بلایا اور اس درویش نے بادشاہوں کے انداز میں پوچھا، ”مانگ کیا مانگتا ہے تو عرب شیخ نے اسی شاہکار کی طرف اشارہ کیا۔ ”بادشاہ“ نے بڑی فراخ دلی سے عطا کر دیا۔ شیخ نے قیمت دریافت کی تو فرمایا ہماری تخلیقات کی کوئی قیمت تھوڑا ہی ہوتی ہے، بس اٹھا لو اور جاؤ۔

آج اسی دریا دل مصوّر، خطاط اور نقّاش کا یومِ وفات ہے۔ صادقین 10 فروری 1987ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے صادقین کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کا مدفن کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں ہے۔

صادقین اپنے فن پارے بیچتے نہیں تھے بلکہ جسے چاہتے، بطور تحفہ عنایت کر دیتے تھے۔شخصیات ہی نہیں اداروں اور آرٹ گیلریز کو بھی صادقین نے اسی طرح اپنے فن پارے دیے۔ 1981 میں صادقین نے سنگِ مرمر پر مارکر سے سورۂ رحمٰن کی خطاطی کی تھی جو اسلام آباد میں چھوڑ آئے تھے۔ بعد میں سنگ مرمر کی یہ تختیاں کراچی منگوائیں اور یہاں کی میونسپل کارپوریشن کو تحفتاً دے دیں۔

شہرۂ آفاق مصور صادقین کا تعلق امروہہ سے تھا۔ وہ 20 جون 1930ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا نام سید صادقین حسین نقوی تھا۔ وہ ایک ایسے گھرانے کے فرد تھے جس میں والدہ اگرچہ مکتبی و نصابی تعلیم سے نابلد تھیں، تاہم میر انیسؔ کے مرثیے نوکِ زبان پر رہتے اور یوں صادقین شروع ہی سے تخیّل اور اظہار کی اہلیت سے واقف ہوگئے۔ امروہہ میں بگلا نامی کوچے میں انھوں نے اس ماحول میں آنکھ کھولی کہ شعر و ادب سے سبھی کو رغبت اور فن سے محبت رہی۔ علاقہ میں خوش نویس بھی تھے اور یہیں صادقین کو وَصلیوں اور شاعری سے لگاؤ ہوگیا۔ کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں کو بھی انہوں نے اس شوق کی نذر کیا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

1944-46ء تک صادقین نے آل انڈیا ریڈیو میں اسٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ 1946ء میں امام المدارس انٹر کالج میں آرٹ ٹیچر کے طور پر تدریس کا فریضہ انجام دینے لگے اور 1948ء میں آگرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد پاکستان آگئے۔ شاعری اور مصوری کا آغاز پہلے ہی کرچکے تھے۔ پاکستان میں فن مصوّری اور خطّاطی میں ان کی پہچان بنتی گئی۔ صادقین کی اصل شہرت کا آغاز میورلز سے ہوا جو انہوں نے کراچی ایئرپورٹ، سینٹرل ایکسائز لینڈ اینڈ کسٹمز کلب، سروسز کلب اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی لائبریری میں بنائیں۔ پھر وہ پیرس چلے گئے جہاں اپنے فن پاروں کی نمائش کی اور ناقدین و شائقین سے خوب داد پائی۔ صادقین کو کئی بین الاقوامی اعزازات بھی دیے گئے۔

صادقین کا شاعری سے لگاؤ ایسا تھا کہ انہوں نے کئی شعرا کا کلام مصور کیا۔ خود وہ رباعی کے شیدائی تھے۔ ان کی رباعیاں مشہور ہیں اور انہیں مصور بھی کیا ہے۔ 1969ء میں غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر صادقین نے کلامِ غالب کو مصورانہ کمال کے ساتھ نہایت خوب صورتی سے پیش کیا۔ انہوں نے اسلامی خطاطی میں ایک نئے طرز کی بنیاد ڈالی۔ لاہور کے عجائب گھر کی چھت بھی صادقین کی لازوال مصوّری کا نمونہ ہے۔

1986ء میں کراچی کے جناح ہال کو صادقین اپنی مصوری سے آراستہ کرنے کا آغاز کر چکے تھے، جو ان کی اچانک موت کی وجہ سے ادھوری رہ گئی۔

صادقین کی شاعری کی ابتدا نظموں سے ہوئی۔ وہ صدف تخلص کرتے تھے۔ لیکن بعد میں انہوں نے اپنے نام کو ہی تخلص قرار دیا۔ انہوں نے خود کو رباعیات تک محدود رکھا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں