ڈائری لکھنا ذہنی صحت کیلیے بہت اچھی روایت رہی ہے لیکن موجودہ جدید دور میں خاص طور پر سوشل میڈیا کی آمد کے بعد یہ تعمیری عادت ماضی کا حصہ بن گئی ہے۔
ماضی قریب میں ڈائری لکھنے کی عادت ایک بہترین مشغلہ رہا ہے، یہ ہمارے برے دنوں میں بھی اچھی اور خوشگوار یادیں یاد کروا سکتی ہے جس سے آپ کے دکھ اور ڈپریشن میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اسسٹنٹ پروفیسر سوشیالوجی ڈاکٹر محمد رضوان صفدر نے ڈائری لکھنے کی افادیت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
View this post on Instagram
انہوں نے کہا کہ ڈائری لکھنا اور سوشل میڈیا پر ولاگنگ کرنا یا مختلف موضوعات پر پوسٹ کرنا دو علیحدہ باتیں ہیں، کیونکہ سوشل میڈیا پر سب لوگ آپ کی مصروفیات دیکھتے اور پڑھتے ہیں جبکہ ڈائری خالصتاً آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اکثر غصے، افسردگی اور بے چینی کی حالت میں اپنے جذبات کو بیان کرنا مشکل ہوتا ہے، ایسی حالت میں ڈائری میں خود سے باتیں کرکے بھی بہت سے حل نکالے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد رضوان صفدر نے بتایا کہ ڈائری میں اپنی یاد داشتیں اور اہم باتوں کو لکھنا ایک طرح سے اسپیچ تھراپی ہے اور اس سے انسان کی ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے کیوں کہ لکھنے کے عمل سے انسان کو اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرنے کا موقع ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روزانہ ڈائری لکھنا بہت سے جسمانی و دماغی فوائد پہنچا سکتا ہے۔ یہ عادت انسان کی قوت مدافعت کو بہتر بناتی ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ڈائری لکھنے کا سب سے اہم فائدہ دماغی تناؤ اور ڈپریشن میں کمی آنا ہے۔ ڈائری میں اپنے جذبات اور احساسات لکھ لینا آپ کو دماغی طور پر پرسکون کرتا ہے جس سے آپ کے ڈپریشن میں کمی آتی ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی سے اپنی پریشانی کہہ کر اپنا دل ہلکا کرلیں۔
انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں میں سوشل میڈیا کا رجحان پیدا کرنے کے بجائے ان کے اندر ڈائری لکھنے کے شوق کو پروان چڑھائیں۔