بدھ, فروری 12, 2025
اشتہار

رینے ڈیکارٹ: جدید فلسفہ کا بانی

اشتہار

حیرت انگیز

فلسفیانہ خیالات کی ترسیل اور وضاحت سے اس کا بیان ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے اکثر بڑے بڑے فلاسفہ اور مفکر بے بس نظر آئے ہیں کہ وہ کس طرح اپنے فلسفیانہ خیالات کی دوسروں کے لیے وضاحت کریں‌ کہ ہر ایک پر ان کی بات کھل جائے اور وہ اسے آسانی سے سمجھ سکیں۔ لیکن رینے ڈیکارٹ وہ نام ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنے فلسفیانہ خیالات کو بڑی آسانی سے بیان کیا اور ان کی مکمل تفہیم کرنے میں کام یاب رہا ہے۔

رینے ڈیکارٹ کو تاریخ ایک سائنس داں، فلسفی اور ریاضی کے ماہر کے طور پر پہچانتی ہے جس نے فلسفہ اور جیومیٹری میں بہت کام کیا۔ اس نے ”خطوط مرتبہ جیومیٹری“ ایجاد کر کے جیومیٹری میں ایک بڑا اضافہ کیا۔

دوسری طرف ناقدین اسے تضاد کا شکار یا دہری شخصیت کا حامل شخص بھی بتاتے ہیں اور شخصیت کا یہی دہرا پن اس کے فلسفے میں بھی ظاہر ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا دو قسم کی اشیاء ذہن اور مادّہ سے مل کر بنی ہے۔ اب ذہن ناقابلِ تقسیم اور ناقابلِ توسیع شے تصور کیا جاتا ہے جب کہ مادّہ قابلِ تقسیم اور قابلِ توسیع ہے تو پھر ذہن اس جسم کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے جو سائنس کے میکانکی اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے؟ ڈیکارٹ اس سوال کا جواب نہیں دے سکا۔ ایک بار اس نے کہا کہ ذہن اور جسم دماغ کے نچلے حصے میں موجود ’’پائی نی ایل گلینڈ‘‘ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے ڈیکارٹ نے اصل سوال کو نظر انداز کر دیا۔ سوال یہ نہیں تھا کہ کہاں تعامل کرتے ہیں؟ سوال تو یہ تھا کہ کس طرح تعامل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ڈیکارٹ کی کام یابی اور اس کے حاصلات سے انکار ناممکن ہے کیوں کہ ڈیکارٹ کا فلسفہ اور اس کا بیانیہ مؤثر ثابت ہوا اور وہ بڑی حد تک اپنی بات کی تفہیم کرتا ہے۔

فلسفہ کے طالبِ علموں کے لیے یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ ڈیکارٹ وہ فلسفی تھا جس خود کو اس بات پر قائل کیا کہ ایک مضبوط فلسفے کی بنیاد رکھنے کے لیے اسے ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہو گا۔ اس کے مطابق سب سے کم قابلِ شک اصول و قواعد ریاضی اور جیومیٹری کے ہیں، جیسا کہ دو جمع دو چار یا ایک مربع کے پہلوؤں کی گنتی۔ وہ فلسفے کو بھی ایسے ہی اصول و قواعد کی بنیادوں پر کھڑا دیکھنا چاہتا تھا۔

اس کے مطابق، ہم ریاضی میں مسلمہ اصولوں سے آغاز کر کے اگلے مرحلے کے قوانین یا مسئلوں پر پہنچتے ہیں، جو مکمل طور پر پچھلے مرحلے کے مسلمہ اصولوں سے اخذ شدہ قرار دیے جاتے ہیں۔ ہم اسی طرز پر مرحلہ وار آگے بڑھتے جاتے ہیں اور مزید پیچیدہ مسئلوں تک پہنچتے ہیں جن کو بھی مسلمہ ہی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ہر مرحلے میں ہمارا انحصار صرف مسلمہ اصولوں پر ہی رہا۔

رینے ڈیکارٹ نے اپنی کتابوں ’’طریقہ کار کا بیان‘‘ (discourse on Method) اور ’’غور و فکر‘‘ (Meditations) میں اپنے فلسفے کی بنیاد ’’شک‘‘ پر رکھی ہے مگر یہ سوفسطائیوں والی تشکیک نہیں تھی بلکہ اس تشکیک کی بنیاد ڈیکارٹ نے سائنس کے اصولوں پر رکھی تھی کہ ہمیں خیال کی دنیا میں سوالیہ ذہن کے ساتھ داخل ہونا چاہیے۔ اسی خیال کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے رینے ڈیکارٹ نے ایک شہرۂ آفاق مقولہ دیا ”میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔“ اس مقولے کی تفہیم میں وہ کہتا ہے کہ جب میں ہر شے پر شک کر رہا ہوں تو کم از کم میں اس بات پر تو شک نہیں کر سکتا کہ میں شک کر رہا ہوں۔ شک کی وجہ سے جب دنیا کی ہر شے غیر یقینی لگ رہی ہو تو ایک ’شک‘ ہی بچتا ہے جس پر یقین کیا جا سکے۔ شک کرنا سوچ کا مظہر ہے۔ لہٰذا میں سوچ رہا ہوں، اور سوچ میں تبھی رہا ہوں جب میں واقعی ہوں۔ یہ سوچ ہی میرے وجود کی دلیل ہے۔ اگر سوچ نہ رہے تو وجود کی دلیل بھی نہ رہے گی۔ لہٰذا میری کل فطرت یا روح کا انحصار سوچ پر ہے اور اس روح کو کسی جگہ یا مادّی شے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے روح جسم سے الگ ہے اور یہ اس وقت بھی رہے گی جب جسم نہ بھی رہے۔ اسی دوران ڈیکارٹ کو ادراک ہوا کہ ایک ایسی شے موجود ہے جس پر شک کی گنجائش نہیں ہے اور وہ اس کا اپنا وجود ہے۔ اسی خیال کے ساتھ اس نے جو نتیجہ اخذ کیا اس پر اپنے فلسفے کی بنیاد رکھی اور خدا کے وجود کو بھی نہ صرف ثابت کرنے کی کوشش کی بلکہ خدا پر پختہ یقین کا اظہار کیا مگر اسی کو ناقدین نے کلیسا کو خوش کرنے کوشش بتایا ہے۔

اوپر یہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ ڈیکارٹ کئی جگہ تضاد کا شکار اور دہری شخصیت نظر آیا اور اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اس نے خدا پر پختہ یقین کے باوجود اپنے مسودات چھپنے سے پہلے چرچ سے وابستہ ایک دوست مرسینے کو اس نیت سے بھیجے کہ وہ اسے جانچ پرکھ کر بتائے کہ اس کے یہ خیالات کہیں چرچ کی تعلیمات سے متصادم تو نہیں۔ تماشا یہ بھی ہے کہ بعد میں اسی شخص پر الحاد (Atheism) کا الزام لگا دیا گیا۔ اسے بدعتی کہا گیا اور یہ مشہور ہو گیا کہ رینے ڈیکارٹ مروجہ عقیدوں کے خلاف ہے جو مذہب پرستوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ تاہم کسی طرح یہ معاملہ رفع دفع ہوا۔

ڈیکارٹ 1596ء میں فرانس میں پیدا ہوا تھا۔ اسے جدید فلسفہ کا بانی سمجھا جاتا ہے جس نے اس دور میں فلسفے کی از سر نو تشکیل کا بیڑا اٹھایا اور اس میں‌‌ اپنی برتری منوانے میں کام یاب رہا۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ وہ ہمیشہ اپنا اور کلیسا کا تعلق خوش گوار رکھنے کے لیے کوشاں رہا۔ مگر پھر بھی بدعتی اور ملحد قرار پایا اور اس پر حملے بھی ہوئے۔

ڈیکارٹ کی شہرت پورے یورپ میں پھیل چکی تھی۔ وہ تعلیم یافتہ اور دانشور حلقوں کے ساتھ شاہی خاندان کے افراد میں ایک فلسفی اور مصنّف کے طور پر پڑھا جانے لگا تھا۔ انہی میں سے ایک سویڈن کی ملکہ بھی تھی۔ وہ ایمسٹرڈیم سے بیس میل دور شمال میں سمندر کے کنارے’’ایگمنڈ بینن‘‘ کی چھوٹی سی اسٹیٹ میں مزے کی زندگی گزار رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ پیرس کا چکر بھی لگا آتا اور اپنے پرانے دوستوں پاسکل اور ہابس سے تبادلہ خیال کرکے واپس لوٹتا۔ انہی دنوں سویڈن کی ملکہ کرٹینا اس کی ایک کتاب پڑھ کر اس قدر متاثر ہوئی کہ اس نے ڈیکارٹ کو اپنے دربار میں آنے کی دعوت دی تاکہ وہ اس سے فلسفے کے باقاعدہ اسباق لے سکے۔ ڈیکارٹ دیر تک سونے کا عادی تھا۔ وہ سہل پسند اور بے فکرا تھا جس کے لیے اسٹاک ہوم کا لمبا سفر کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں تھا۔ اس نے کئی بار معذرت کی اور ملکہ کی بے جا تعریف کرتے ہوئے کئی خوشامدانہ خط بھی لکھے مگر دھن کی پکی ملکہ پر اس کا الٹا اثر ہوا اور اس نے اپنے ایڈمرل کو بحری بیڑے سمیت ڈیکارٹ کو لانے کے لیے بھیج دیا۔

آخر وہ ملکہ تک پہنچا اور وہ جنوری کا مہینہ تھا جب اسے بتایا گیا کہ ملکہ ہفتے میں تین روز اس سے فلسفے کی تعلیم حاصل کریں گی، مگر اسے صبح سویرے انھیں پڑھانا ہوگا۔ شدید سردی کے دنوں میں رینے ڈیکارٹ کو علی الصبح اٹھ کر محل پہنچنا پڑا اور دو ہی ہفتے کے اندر ڈیکارٹ پر موسم کی سختی نے برا اثر ڈالا اور اسے نمونیہ ہوگیا۔ 11 فروری 1650ء میں رینے ڈیکارٹ چل بسا۔ سویڈن میں تدفین کے کچھ عرصہ بعد اس کی لاش کو پیرس لایا گیا اور یہاں اس کی تدفین کی گئی۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں