سندھ کی جامعات میں بیوروکریٹس کو وائس چانسلرز مقرر کرنے کے قانون میں ترمیم کا بل گورنر نے واپس بھیج دیا۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے سندھ جامعات ترمیمی ایکٹ پر اعتراضات لگا کر واپس بھیج دیا۔ سندھ اسمبلی نے جامعات ترمیمی ایکٹ کی 31جنوری کو منظوری دی تھی۔
ترمیمی قانون کے تحت ایم اےپاس حاضر سروس بیوروکریٹ کو وائس چانسلر بنانےکا اختیار دیاگیا تھا۔
چند روز قبل وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے قانون سازی کو واپس نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ باہر سے وفد آیا ان کے نام پر ہوٹل اور ٹکٹ کے پیسے وی سی کھا گیا، میں اس وائس چانسلرکو نہیں نکال سکتا کیونکہ وہ عدالت چلے گئے اس کیلیے قانون سازی ضروری ہے۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں، ایسے بھی وائس چانسلرز منتخب ہوئے جو جنسی ہراسگی میں اور بعض وائس چانسلرز مالی فراڈ میں ملوث نکلے، پروفیسرز میدان میں آئیں وائس چانسلر بنیں کس نے روکا، یہ کہنا غلط ہے کہ بیوروکریٹس کیلیے وائس چانسلرز کی راہ ہموار کی۔
جامعات سے متعلق ترمیمی بل کیخلاف اساتذہ کا سندھ اسمبلی کے باہر احتجاج
انہوں نے کہا تھا کہ بہت سارے وائس چانسلرز کے پاس فائنانشل اسکلز نہیں، انہوں نے جامعات کو تباہ کر دیا ہے، یہ صوبے کے بچوں کے پیسے ہیں، ہمیں فیڈرل ایچ ای سی سے خیرات نہیں چاہیے یہ رقم بھی خود دیں گے۔
سندھ بھر کی سرکاری جامعات کے اساتذہ ترمیمی ایکٹ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی صورت سول سرونٹس جامعات میں وائس چانسلرز تعینات ہونے نہیں دیں گے۔
انجمن اساتذہ جامعہ اور فپواسا کا کہنا ہے کہ ترمیمی قبول نہیں کیا جائے گا لہٰذا فوری واپس لیا جائے، اساتذہ کو اعتماد میں لیے بغیر بل پیش کیا گیا۔
صدر انجمن اساتذہ جامعہ کراچی محسن علی نے کہا کہ جامعات کی خود مختاری کسی صورت متاثر نہیں ہونے دیں گے، ہم کسی صورت جامعات کی خود مختاری متاثر نہیں ہونے دیں گے۔