ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو ایک بڑی تجارتی جنگ کی نئی لیکن دور رس نتائج رکھنے والی کشمکش سے متعارف کرا دیا ہے، اور اب دنیا ایک بڑی تجارتی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔
ٹرمپ کی شروع کی گئی تجارتی جنگ (بالخصوص چین، یورپی یونین، اور دیگر ممالک کے ساتھ) عالمی معیشت پر کئی ممکنہ اثرات ڈال سکتی ہے، اس کے نتائج قلیل مدتی اور طویل مدتی دونوں سطحوں پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اس تجارتی جنگ کے ممکنہ نتائج اور اثرات میں سب سے اہم وہ معاشی سست روی ہے جو عالمی معیشت کو متاثر کر سکتی ہے۔ اگر بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی رکاوٹیں بڑھیں گی، تو عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہو سکتی ہے۔ اس میں سست روی پہلے ہی دیکھی جا رہی ہے، جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اس وقت عالمی اقتصادی ترقی کی شرح (2023 کے لیے) 2.7 فی صد ہے، جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں سست روی کو ظاہر کرتی ہے۔
اس جنگ کا براہ راست متاثر کنندہ وہ صارف ہے جو مہنگائی کے بوجھ تلے مزید دب جائے گا، کیوں کہ تجارتی محصولات (ٹیرف) بڑھنے سے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، جس کا اثر عام صارفین پر پڑے گا۔ موجودہ عالمی صورت حال یہ ہے کہ سپلائی چین میں خلل، توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات، اور جغرافیائی سیاسی تناؤ جیسے عوامل عالمی افراط زر میں پہلے ہی حصہ ڈال رہے ہیں، جس سے دنیا بھر میں قیمتیں متاثر ہو رہی ہیں۔
ٹرمپ کی اس جنگ سے خود امریکی معیشت پر دیرپا اثر پڑے گا، چین اور دیگر ممالک پر ٹیرف لگانے کے بعد امریکی درآمدات مہنگی ہو گئیں، جس کا بوجھ عام امریکی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔ امریکا میں بہت سے لوگ روزانہ میکسیکو میں اگائے گئے پھل کھاتے ہیں، چین میں بنائے گئے فون استعمال کرتے ہیں اور کینیڈا کی لکڑی سے بنے گھروں میں رہتے ہیں۔ ایک غیرجانب دار تنظیم ’ٹیکس فاؤنڈیشن‘ کے ایک تجزیے سے پتا چلا ہے کہ ٹرمپ کے نئے ٹیرف کے نفاذ سے 2025 میں ہر امریکی گھرانے پر ٹیکس میں اوسطاً 800 ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوگا۔
یہ ایک ایسی جنگ میں جس میں برآمد کنندگان کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین اور یورپ نے بھی جوابی ٹیرف لگائے، جس سے امریکی برآمدات کم ہو گئیں، خاص طور پر زراعت اور مینوفیکچرنگ کے شعبے متاثر ہونے لگے ہیں۔ بی بی سی کے ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں تقریباً دو تہائی (63 فی صد) مینوفیکچررز (جو اپنی مصنوعات برآمد کرتے ہیں) کہتے ہیں کہ وہ امریکی محصولات سے متاثر ہوں گے۔ 1,200 سے زائد فرموں نے کہا کہ ایک طرف ان کی لاگت پر براہ راست اثر پڑے گا، اور دوسری طرف بڑی پریشانی یہ لاحق ہو گئی ہے کہ مصنوعات کی عالمی مانگ میں کمی آئے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کمپنیاں زیادہ لاگت کی وجہ سے پیداواری یونٹس بند کرتی ہیں، یا بیرون ملک منتقل کرتی ہیں، تو ملازمتوں میں کمی ہو سکتی ہے، یعنی روزگار پر دباؤ کا ایک پریشان کن مسئلہ سر اٹھائے گا۔ ٹرمپ کی موجودہ پالیسیوں کے انجام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2021 میں امریکا چین بزنس کونسل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کے گزشتہ دور صدارت میں ان کی تجارتی پالیسیوں سے ڈھائی ملازمتیں ختم ہوئی تھیں۔
غزہ میں کوئی رئیل اسٹیٹ آپریشن نہیں چل رہا، فرانسیسی صدر کا ٹرمپ کے بیان پر رد عمل
ٹرمپ کے طور طریقوں سے ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے انھیں اپنی طاقت کے زعم میں یہ یقین بالکل نہی تھا کہ ان کے اقدامات کے جواب میں چین اور دیگر ممالک کا ردعمل نہیں آئے گا۔ لیکن ٹرمپ کی تجارتی جنگ کا ایک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دیگر ممالک متبادل منڈیاں تلاش کرنے لگے ہیں، چین اور یورپ امریکی مصنوعات کی بجائے دیگر ممالک سے تجارت بڑھانے پر توجہ دینے لگے ہیں، جس سے امریکا کی عالمی مارکیٹ میں گرفت کمزور پڑ جائے گی۔ اس سلسلے میں ٹیکنالوجی کی جنگ کا بھی امریکا کو شدید نقصان پہنچ سکا ہے، امریکا نے ہواوے اور دیگر چینی کمپنیوں پر پابندیاں لگائیں، جس کے جواب میں چین نے اپنی ٹیکنالوجی کی خود کفالت پر کام تیز کر دیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں سے کاروباری ماحول پر نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے، اور سرمایہ کاری میں کمی آئے گی۔ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کار ابھی سے محتاط ہو گئے ہیں، جس کا اثر عالمی اسٹاک مارکیٹس پر بھی پڑنے لگا ہے۔ دی گارڈین کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے چین، کینیڈا اور میکسیکو پر نئے امریکی محصولات پر دستخط کیے جانے کے بعد سے عالمی اسٹاک مارکیٹ دباؤ میں آ گئی ہے۔ کیوں کہ عالمی سطح پر اسٹاک ایکسچینجز میں کاروبار تیزی سے نیچے گرا۔
امریکی صدر کی شروع کی گئی جنگ کا ایک اثر سپلائی چینز میں تبدیلی پر مرتب ہوگا، کئی عالمی کمپنیاں جو امریکا اور چین دونوں سے جڑی تھیں، اپنی سپلائی چینز کو دیگر ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ عالمی سپلائی چینز پیشین گوئیوں پر پروان چڑھتی ہیں، اور ٹیرف کی جنگ نے اس کے توازن میں خلل ڈال دیا ہے، ٹیرف قیمتوں، طلب اور تجارتی راستوں کو بدلنے لگا ہے، جسے سے ظاہر ہے کہ بہترین طور پر منظم تجارتی اداروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔
ٹرمپ نے جنگ شروع تو کر دی ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات سے شاید وہ ابھی نا واقف ہیں۔ ایک بڑا خدشہ یہ ہے کہ اس سے دنیا بھر میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی آ جائے گی۔ اگر چین، یورپ، اور دیگر ممالک تجارتی محاذ پر ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو امریکی معیشت کا عالمی تجارتی نظام میں کردار کم ہو جائے گا۔ مستقبل میں امریکا اور دیگر ممالک نئے تجارتی معاہدے کریں گے جس سے موجودہ حالات بدل جائیں گے، اور نئی تجارتی پالیسیاں بننے لگیں گی۔
مختصر یہ کہ اس تجارتی جنگ کے نتائج معیشت، سیاست، اور عالمی طاقتوں کے توازن پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔ اگر یہ تنازعہ لمبے عرصے تک جاری رہا تو عالمی معیشت کو بڑا نقصان پہنچے گا۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی سفارتی حل نکالا جائے، اور ایک ایک نیا لیکن متوازن تجارتی نظام تشکیل دیا جائے۔