کانٹ غالباً وہ پہلا فلسفی تھا جس نے ’تنقید بر عقل محض‘ میں انسان کی ذہنی استعداد کی مکمل پڑتال کر کے یہ بتایا کہ انسانی ذہن کی حدود کہاں تک ہیں اور آیا اِن حدود میں رہتے ہوئے ما بعد الطبیعاتی تصورات کا ادراک کیا جا سکتا ہے یا نہیں! یہ مشہور و معروف تصنیف کئی اعتبار سے نہایت اہم خیال ہے، لیکن ایک تو یہ فلسفے کے ادق موضوع یعنی نظریۂ علم پر بحث ہے اور دوسری طرف کانٹ کا پیچیدہ اور مشکل اسلوب اسے ہر سطح کے قاری کو الجھا دیتا ہے آج کانٹ امانویل کا یومِ وفات ہے
امانوئل کانٹ 1724ء میں پروشیا میں (جرمنی) میں پیدا ہوا۔ اس کی پرورش ایک منظم مگر ماحول میں ہوئی۔ اس کی ماں ایک راسخ العقیدہ، دیانت دار اور تصوف کی شیدائی عورت تھی۔ کانٹ جو پانچ فٹ کا کمزور اور غیرمتناسب جسم کا مالک تھا، اس میں اپنی ماں کی وجہ سے پرورش اور تربیت میں مذہبی رنگ اور طور طریقے دیکھے اور بڑے ہوکر اس پر رد عمل ظاہر کیا۔ دراصل اس نے ماں کی وجہ سے مدرسہ سے مروجہ کلاسیکی تعلیم اور مذہبی اور اخلاقی تربیت پائی اور سختی بھی دیکھی تھی۔ پھر وہ تقریباً ساری زندگی چرچ سے بیزار رہا۔ کانٹ نے رواج کے مطابق تعلیم کے دوران علومِ فلسفہ اور علومِ طبیعی میں گہری دل چسپی
لی اور پھر فلسفہ کا سکہ کانٹ کے دل پر بیٹھ گیا۔ 1755ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ایک یونیورسٹی میں لیکچرار بن گیا۔ تاہم اس نے بہت عرصہ اپنی قابلیت اور معیار سے نچلے درجے پر کام کیا۔ اس عرصہ میں وہ دنیا اور ستائش سے بھی بے نیاز مابعدالطبیعیات پر کام کرتا رہا۔ مگر آگے چل کر اس نے دنیا کو حیران کردیا۔ اس کی پہلی تصنیف تاریخِ طبیعی اور نظریہ فلکیات تھی جس سے اس نے اپنے تبحرِ علمی اور تحقیق کو منوایا۔ وہ کبھی اپنے شہر سے باہر نہیں گیا مگر پہلی کتاب اور دوسرے مقالہ جات نے اسے اہل علم و دانش اور عوام میں مقبول کردیا۔ وہ علومِ طبیعی سے مختلف موضوعات پر لیکچرر دینے لگا جنھیں سننے کے لیے بہت لوگ آیا کرتے تھے۔ وہ اپنے زمانے کا باخبر آدمی سمجھا گیا۔ اس وقت کانٹ کے مختلف فلسفیانہ مضامین اور رسائل وغیرہ سلاست، جدت اور تازگی کا نمونہ تھے اور خود کانٹ ایک خوش مزاج شخص جب کہ طبیعت میں بذلہ سنجی بھی تھی، لیکن پھر وہ خالص فلسفہ اور اس کے مسائل کی جانب ایسا متوجہ ہوا کہ اس پر سنجیدگی غالب آگئی۔ ساتھ ہی اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی، مگر امانوئل کانٹ اپنی دنیا میں گم رہا اور گہرے، دقیق علمی مسائل اور فلسفہ میں اپنے نظریات کو تحریر کی شکل دیتا رہا۔ کہتے ہیں کہ یہ اس کی زندگی میں ایک بڑا تغیر تھا جس نے اس کی تحریروں کو بھی پیچیدہ، ادق اور مشکل ترین بنا دیا۔ اس کے باوجود وہ اپنی اہمیت اور حیثیت منواتا رہا۔
مصنف اور فلسفی امانوئل کانٹ وقت کا پابند اور نہایت منظّم شخص تھا۔ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جب چہل قدمی کے لیے نکلتا تھا تو لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت درست کر سکتے تھے۔ اس نے شادی نہیں کی اور ساری زندگی علم کے لیے وقف کر دی۔ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اس دور کے روایتی ماحول میں رہتے ہوئے کانٹ نے مذہب اور سیاست پر کھل کر اظہار خیال کیا۔ اس کی مذہب اور خدا پر تحریروں نے جرمنی کے راسخ العقیدہ لوگوں کو اس کا مخالف بنا دیا۔ بہت سے مذہب پرستوں اور پادریوں نے اپنے کتوں کا نام کانٹ رکھ دیا اور یوں اس کی تذلیل کا سامان کرکے اپنی تسکین کی۔
کانٹ کے دور میں تجربیت پسند فلسفی غالب تھے۔ امانوئل کانٹ نے عقلِ محض پر تنقیدی جائزہ لکھا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ محض حسی یا تجرباتی علم ناکافی ہے۔ عقل محض سے کانٹ کی مراد وہ علم یا ادراک ہے جو ہماری پیدائشی فطرت اور دماغ کی وضع سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ وہ علم جو حسیات یا تجربات سے حاصل ہوتا ہے۔ تجربہ علم کو آشکار کرتا ہے اور کسی ایک زاویہ سے اس کی حقانیت جانچتا ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ وہ علم پہلے سے موجود نہیں تھا، یا اس زاویے کے علاوہ کوئی اور نقطہ نظر یا منطقی زاویہ اپنا وجود نہیں رکھتا تھا۔
کانٹ کا فلسفیانہ کام سامنے آیا تو اسے شہرت اور مقبولیت بھی ملی اور مغربی فلسفے کے دوسرے دور میں کوئی اس کا مقابل نظر نہیں آتا۔ اس کی کتاب 1781ء میں بعنوان ’’تنقید برعقل محض‘‘ شایع ہوئی تھی اور آج تک اس کی اہمیت برقرار ہے۔ بعد میں آنے والے فلاسفہ اور مابعدالطبیعیات مباحث چھیڑنے والوں نے کانٹ کو سراہا ہے۔
کانٹ اپنے فلسفیانہ ورثے سے مکمل طور پر آگاہ تھا۔ وہ ڈیکارٹ اور اس جیسے دوسرے عقلیت پسندوں سے آگاہ تھا، جو یہ کہتے تھے کہ عقل علم کی بنیادوں کی تشکیل پذیری کرتی ہے اور وہ تجربیت پسندوں کو بھی سمجھتا تھا جن کا عقیدہ تھا کہ دنیا کا تمام علم حواس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ کانٹ کائنات کو دیکھنے کے تیسرے نقطۂ نظر کے ساتھ سامنے آیا۔ اس نے کہا کہ یہ دونوں نظریات جزوی طور پر درست ہیں اور غلط بھی۔ عقلیت پسند تجربے کی اہمیت سے انکار کر رہے ہیں اور تجربیت پسندوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں کہ جس انداز میں ہم حسیاتی طور پر دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ کس طرح ہمارے دماغ پر اثر انداز ہو کر نتائج پیدا کرتا ہے۔ اس کا کہنا تھاکہ انسانی دماغ کوئی موم کا ٹکڑا نہیں ہے، جو محض باہر سے حاصل کردہ عکس کا پرنٹ پیش کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس انداز سے ہم دنیا کی تفہیم و تشریح کرتے ہیں، ذہن اس پر اپنی چھاپ لگا دیتا ہے۔
کسی کو گمان بھی نہیں تھا کہ وہ ایک نئے اور چونکا دینے والے مابعدالطبیعاتی نظام سے بحث کر کے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لے گا۔ اس نے کہا یہ درست ہے کہ میں مابعد الطبیعات کے عشق میں مبتلا ہوں، مگر یہ ایک ایسا سمندر ہے جس کی کوئی اتھاہ نہیں، اس کے ساحل ہیں نہ زیرسمندر روشنی کے مینار، البتہ جگہ جگہ فلسفیوں کے ٹوٹے پھوٹے جہاز بکھرے پڑے ہیں۔
اس جرمن فلسفی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ سربراہ اس کا تعلیمی خرچ اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ اس نے ذاتی محنت سے اپنی تعلیم مکمل تھی۔ کانٹ کی تحریروں کو 1760 کے بعد توجہ ملنا شروع ہوئی۔ یہ وہ دور تھا جب جرمن یونیورسٹیوں میں لینبز (G.W.Leibniz) کے افکار چھائے ہوئے تھے۔ کانٹ نے لینبز پر سخت تنقید کی اور دلائل کے اعتبار سے بہت طاقت ور خیالات پیش کیے جو لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے۔ بعد میں کانٹ نے فلسفے کی دنیا میں عقل اور آزادی کو اپنی سوچ کا محور قرار دے کر جو خیالات سامنے رکھے وہ اب بھی علم و عمل کے راستے میں آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
12 فروری 1804ء کو کانٹ انتقال کر گیا تھا۔