رابعہ خضداری جو رابعہ بلخی کے نام سے بھی مشہور ہیں، انھیں پہلی تاجک فارسی گو شاعرہ کہا جاتا ہے۔ رابعہ کی شاعری کا شہرہ ان کی زندگی میں ہی ہونے لگا تھا اور ہم عصر شعرا ان سے متاثر نظر آتے تھے لیکن رابعہ اپنی زندگی کے دردناک انجام کے بعد لوگوں کے لیے جرأت اور بہادری کی مثال بن گئیں۔
رابعہ خضداری کو تاریخ میں اسلامی دنیا میں علم و فنون کے سنہرے دور کی پہلی خاتون شاعرہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو زین العرب کے نام سے بھی مشہور ہیں۔ اس کا مطلب ہے ’عربوں کا حُسن۔‘ فارسی ادب میں اوّلین شاعرہ کا امتیاز رکھنے والی رابعہ کا مزار بلخ میں ہے اور افغانستان میں کئی شفا خانے اور اسکول ان سے منسوب ہیں۔
اس شاعرہ کے ابتدائی حالاتِ زندگی بہت کم معلوم ہوسکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سنہ 940 میں اس وقت کے مشہور شہر بلخ میں پیدا ہوئی تھیں اور یہ اس زمانے میں دولتِ سامانیہ کا خوش حال شہر تھا۔ عرب نژاد رابعہ بلخی ادب اور فنون کے میدان میں تربیت یافتہ اور اعلیٰ تعلیم سے بہرہ مند خاتون تھیں۔ وہ اپنے والد کی لاڈلی تھیں جن کا نام امیر کعب تھا اور وہ خراسان اور دیگر علاقوں کے حاکم رہے۔ امیر کعب کی موت کے بعد حارث تخت نشیں ہوا۔ ایک روز رابعہ کی نظر اپنے بھائی کے ساتھ موجود ایک نوجوان پر پڑی اور وہ اس نوجوان کی خوب صورتی اور انداز سے بہت متاثر ہوئی۔ اس کا نام تاریخ میں بکتاش لکھا ہے جو ایک ترک سپاہی تھا۔ رابعہ نے کسی کنیز کے ہاتھوں بکتاش کو ایک محبت نامہ بھجوایا اور اس سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ان کی ملاقات ہوئی، مگر وہ بکتاش کی ایک حرکت پر اس سے نالاں ہوگئی۔ اس کے باوجود وہ اسے دل سے نہیں نکال سکی۔ اس کے بھائی کو کسی طرح رابعہ کی محبت کی خبر ہوگئی اور اس نے بکتاش کو قیدی بنا لیا۔ دوسری طرف یہ مشہور ہے کہ رابعہ کو شاہی حمام میں بند کروا دیا اور اسے حکم دیا کہ وہ اپنی کلائیاں کاٹ لے۔ کہتے ہیں کہ رابعہ نے دردناک انجام کی طرف بڑھتے ہوئے شاہی حمام کی دیواروں پر اپنے اشعار اپنے بہتے ہوئے خون سے لکھے۔ رابعہ کی فارسی زبان میں نظمیں بعد میں ہر محفل میں سنی جانے لگیں اور خاص طور پر نوجوان انھیں مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد کرنے لگے۔
معروف ادیب اور شاعرہ فہمیدہ ریاض لکھتی ہیں، رابعہ خضداری کا نہایت قلیل کلام دستیاب ہے۔ اس کی اہم تاریخی حیثیت ہے جو صرف زبان میں نہیں بلکہ اس خطے کے معاشرے میں فکر کے سفر کی دستاویز ہے۔ ان کی غزلیات پڑھنے سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ دسویں صدی عیسوی تک فارسی زبان کس حد تک صاف ستھری اور مہذب ہوچکی تھی۔ بلخ و خضدار کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والی یہ فارسی گو، عرب نژاد شہزادی، رابعہ بنت کعب، نمائندہ اعلٰی شعری اور تخلیقی صلاحیتوں کی حامل تھیں۔ مختصر بحروں کے اشعار میں موتی سے پرو دیے ہیں۔ ان اشعار سے ان کی نازک خیالی ، لطافتِ فکر اور زبان و محاورے کے نہایت تخلیقی اور حسین استعمال کی نشان دہی ہوتی ہے۔ فہمیدہ ریاض نے لکھا ہے کہ اس پر جب خیال کیجیے کہ ان پر کیسا ظلم وستم کیا گیا تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق ان کے محبوب ترک غلام بکتاش کو رابعہ کے بھائی حارث نے قتل کردیا تھا اور رابعہ کو ایسی کوٹھری میں قید کردیا تھا جس میں کوئی دروازہ یا کھڑکی نہ تھی۔ اس طریقے سے مجرم کو موت کے گھاٹ اتارنے کو ہی ’’دیوار میں چنوانا‘‘ کہا جاتا تھا جہاں بد نصیب سزا یافتہ انسان بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر بڑی مشکل سے جان دے دیتا تھا۔
محققین کا کہنا ہے کہ دسویں صدی عیسوی میں فارسی زبان کا ایک معیاری لہجہ متعین ہو چکا تھا۔ زندگی کے بے شمار روپ اور تجربے فارسی شاعری کا موضوع بن رہے تھے۔ مگر جس وقت رابعہ نے لکھنا شروع کیا تھا تو یہ اسلوب سورج کی طرح اُفق پر تنہا طلوع ہوا تھا۔ یہ دھیما دھیما سا، سرگوشیاں کرتا، گیلی لکڑی کی طرح سلگتا ہوا ایک عجیب چاک گریباں سا لہجہ ہے جس میں سمائے ہوئے سارے الفاظ ہمیں کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔
(رابعہ بلخی پر مضامین ماخوذ)