ریڈیو مواصلات اور رابطے کا قدیم اور واحد ذریعہ تھا جو ہر مقام اور ہر شخص کی پہنچ میں تھا ماضی کی طرح اس کی اہمیت اور افادیت میں کمی نہیں آئی۔
بحیثیت پاکستانی ریڈیو کی اہمیت ہمارے لیے اور بھی زیادہ اس لیے ہے کہ اسی سے 14 اگست 1947 کو وطن عزیز پاکستان کی آزادی کا تاریخی اعلان کیا گیا تھا۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ریڈیو پریزنٹر اور مصنف رضوان زیدی نے موجودہ دور میں ریڈیو کی اہمیت اور ضرورت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ دور حاضر میں بھی ریڈیو کی اہمیت و افادیت اور اعتبار برقرار ہے جتنی کہ ماضی میں تھی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں بھی یہ اپنی تابناک شناخت کو سنبھالے ہوئے ہے۔
ایک سوال کے جواب میں رضوان زیدی نے بتایا کہ بحیثیت پریزنٹر نئی نسل کو یہ مشورہ دوں گا کہ اس فیلڈ میں ضرور آئیں لیکن یاد رکھیں کہ یہ صرف شوق پورا کرنے کا ذریعہ ہے کیونکہ اس میں وہ معاوضہ اور مراعات نہیں جو ذرائع ابلاغ کے دیگر شعبوں میں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریڈیو تربیت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کیونکہ آن ایئر آنے کے بعد یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ کیا کہنا ہے لیکن یہ معلوم نہیں کہ کیا نہیں کہنا، اس چیز کا احساس ریڈیو میزبان ہی کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ 15 اگست 1947ء کو قیامِ پاکستان کے بعد پہلے دن ریڈیو پاکستان کے لاہور اسٹیشن سے پہلا ملّی نغمہ منور سلطانہ کی آواز میں نشر ہوا تھا۔
ریڈیو سے نشر ہونے والے اوّلین ملّی نغمہ کے بول تھے، ‘چاند روشن چمکتا ستارہ رہے، سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے،’ جس میں دلشاد بیگم نے بھی منور سلطانہ کا ساتھ دیا تھا۔
اس کے علاوہ پاکستان کا قومی ترانہ پہلی بار 13 اگست 1954 کو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا یہ ترانہ 11 رکنی گلوکاروں پر مشتمل گروپ نے گایا تھا۔ پاکستان کا قومی ترانہ حفیظ جالندھری نے تحریر کیا اور اس کی دھن موسیقار احمد غلام علی چھاگلہ نے ترتیب دی جنہوں نے 1949 میں قومی ترانہ کمپوز کیا تھا۔